پاکستان میں حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے واقعات اور سیکیورٹی اہل کاروں کی ہلاکت کے پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بعض ماہرین اسے غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کا ردِعمل جب کہ بعض عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کو واقعات میں اضافے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
پیر کو قبائلی ضلع خیبر میں جھڑپ کے دوران پاکستانی فوج کے لیفٹننٹ کرنل سمیت چار اہل کاروں کی ہلاکت ان واقعات میں نیا اضافہ ہے۔
اس سے قبل میانوالی میں پاکستان فضائیہ کی بیس پر چار نومبر کی صبح رواں سال بننے والی شدت پسند تنظیم 'تحریک جہاد پاکستان' کے ایک حملے میں تین جہازوں کو نقصان پہنچا۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جوابی کارروائی کے دوران نو شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ پاکستانی فوج کا کہنا تھا کہ جن طیاروں کو نقصان پہنچا ہے وہ گراؤنڈ کر دیے گئے تھے۔
تین نومبر کو صوبہ بلوچستان کے شہر گوادر کے قریب پسنی سے اورماڑہ جانے والی سیکیورٹی فورسز کی دو گاڑیوں پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں 14 اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔ کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔
اسی روز صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں پیٹرولنگ کرتی ہوئی پولیس موبائل پر شدت پسندوں کے ایک بم دھماکے میں پولیس اہل کاروں سمیت چھ افراد ہلاک ہوئے۔
اتوار کو ڈیرہ اسماعیل خان سے متصل ضلع ٹانک میں ایک پولیس وین پر شدت پسندوں کی جانب سے حملہ کیا گیا جس میں جانی نقصان نہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔
ان حملوں کی ذمے داری ابھی تک کسی گروہ کی جانب سے قبول نہیں کی گئی ہے مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیاں قرار دیتے ہیں۔
حملوں کے وقت کی حساسیت
قانون فافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف نظریات کی حامل شدت پسند تنظیموں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز اور ان کی حساس نوعیت کی حامل تنصیبات پر کیے گئے حملے وقت کی حساسیت کے حوالے سے کافی اہم ہیں۔
سنگا پور میں قائم 'راجا رتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز' سے وابستہ محقق عبدالباسط کا کہنا ہے کہ ملک میں عام انتخابات کے اعلان اور غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان مہاجرین کے خلاف کارروائیوں کا حالیہ دہشت گردی کے واقعات سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔
مگر ان کے بقول ان واقعات کو ملک میں پائے جانے والی بدامنی کے ماحول کے تناظر میں آپس میں جوڑا جائے گا۔
اسلام اباد میں 'دی خراسان ڈائری' سے وابستہ محقق و صحافی احسان اللہ ٹیپو محسود کہتے ہیں کہ شدت پسند تنظیموں کے حالیہ حملے بالخصوص 'تحریکِ جہاد پاکستان' کی جانب سے کیے گئے حملے کا وقت اہم ہے۔ کیوں کہ ملک بھر میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔
خیال رہے کہ تحریک جہاد پاکستان نامی تنظیم کا نام رواں سال فروری میں پہلی بار سامنے آیا تھا، جب اس نے بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں سیکیورٹی فورسز پر حملے کی ذمے داری پہلی بار قبول کی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک جہاد پاکستان کے بارے میں کوئی واضح معلومات تو نہیں۔ لیکن ان کی معلومات اور ملنے والی اطلاعات کے مطابق یہ تحریک طالبان پاکستان سے ہی جڑے لوگ ہیں اور اسی تنظیم کا دوسرا نام ہو سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے احسان اللہ ٹیپو محسود نے کہا کہ ’’پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کی اہم وجہ کابل میں طالبان انتظامیہ کی ٹی ٹی پی کو افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے اندر حملے روکنے سے انکار ہی ہے۔"
ان کے بقول ’’ایسی صورتِ حال میں پاکستانی فضائیہ کے ایئر بیس پر حملہ اسلام آباد اور طالبان اتنظامیہ کے تناؤ کو مزید بڑھائے گا۔"
احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے کہ ماضی میں تحریکِ جہاد پاکستان کی جانب سے بلوچستان کے پختون اکثریتی اضلاع ژوب اور مسلم باغ میں ہونے والے حملوں میں بھی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ کچھ حملوں میں پاکستانی ریاستی اداروں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان حملہ آوروں کو نہ صرف افغانستان سے مدد ملی بلکہ کچھ حملوں میں افغان شہری بھی ملوث تھے۔
سیکیورٹی حکام، خصوصاً نگراں وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی نے متعدد بار ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ رواں سال مئی میں مسلم باغ میں دہشت گردی کے حملے میں پانچ افغان شہری جب کہ جولائی میں ژوب کینٹ پر حملہ کرنے والے پانچ شدت پسندوں میں تین افغان شہری ملوث تھے۔
واضح رہے کہ طالبان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
'غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی آ سکتی ہے'
کراچی میں ہی افغان مہاجرین کے ایک رہنما نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ملک بھر میں حالیہ دہشت گردی کے بڑے واقعات کے باعث تارکینِ وطن کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی آ سکتی ہے۔
معاملے کی حساسیت کی وجہ سے انہوں نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’پاکستان میں جاری افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ ہی دہشت گری کے بڑھتے ہوئے واقعات ہے جس سے ملک میں دہائیوں سے رہنے والے مہاجرین کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
ماہرین کے مطابق یوں تو کالعدم علیحدگی پسند گروہوں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز پر حملے باقاعدگی سے ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن بلوچ علیحدگی پسند رہنما بشیر زیب کی بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ چند ماہ کے وقفے کے بعد ایک حکمتِ عملی کے تحت سیکیورٹی فورسز اور چینی مفادات پر ایک بڑا حملہ کر کے اپنے وجود کو تسلیم کرواتی ہے۔
اگست میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے وابستہ تنظیم مجید بریگیڈ کی جانب سے گوادر میں چینی انجینئرز کے قافلے پر ایک حملہ کیا گیا جس میں چینی باشندے محفوظ رہے۔
چینی اخبار گلوبل ٹائمز کے مطابق اس وقت 23 چینی انجینئرز اس قافلے میں شامل تھے۔
SEE ALSO: خواتین اور بچوں کو زبردستی افغانستان نہ بھیجا جائے: عالمی تنظیموں کی پاکستان سے اپیلعام انتخابات اور دہشت گردی کی حالیہ لہر
بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ملک میں عام انتخابات کے لیے پولنگ کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کے تین صوبوں میں دہشت گردی کے بڑے واقعات سے ان خدشات کو تقویت ملی ہے۔
ماہرین کے مطابق کچھ شدت پسند تنظیمیں پاکستان میں جمہوری عمل کو آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتیں۔
عبدالباسط کا کہنا ہے کہ ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے اگلے 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران دہشت گردی کے بڑے واقعات کو انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں سمجھی جائے گی۔
ان کے بقول ’’ان حملوں میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی انتخابات کی مہمات پر اثرات مرتب ہوں گے۔"
عبدالباسط کا کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیم ’دولتِ اسلامیہ یا داعش‘ کی مقامی شاخ داعش خراساں نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنماؤں پر حملوں کے ذریعے انتخابی عمل کو روکنے کی دھمکیاں دی ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان میں بھی کالعدم علیحدگی پسند تنظیمیں ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گی۔
خیال رہے کہ داعش خراساں نے جولائی میں جے یو آئی (ف) کی انتخابی ریلی پر خودکش حملے کہ ذمے داری قبول کی تھی جس میں 60 کے لگ بھگ پارٹی کارکنان ہلاک ہوئے۔
اس حملے کے چھ ہفتے بعد بلوچستان کے ضلع مستونگ میں جے یو آئی (ف) کے اہم رہنما مولانا حمد اللہ ایک خودکش حملے میں زخمی ہوئے۔
ماضی میں سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانے والی ٹی ٹی پی کی جانب سے متعدد بار کہا جا رہا ہے کہ ان کے اہداف میں سیاسی جماعتیں، ان کے جلسے جلوس اور عام لوگ شامل نہیں ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ جنوری میں پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد ٹی ٹی پی ہی سے وابستہ ایک گروہ نے واقعے کی ذمے داری قبول کی تھی۔
خیال رہے کہ پولیس لائن پشاور خودکش حملے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
دوسری جانب بلوچستان میں بھی علیحدگی پسند تنظیموں خصوصا بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ کی جانب سے مکران ڈویژن میں انتخابات میں حصہ والے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پر حملے اور دھمکیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں 2013 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل درجنوں دھماکے اور خودکش حملے ہوئے تھے جن میں سینکڑوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
2018 میں انتخابات کا سال 2013 کی نسبت بہتر رہا مگر ٹارگٹ کلنگ اور خودکش دھماکوں کا سلسلہ اس سال بھی جاری رہا۔