ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے مونکی پوکس کا نام تبدیل کرکے ایم پاکس( mpox) رکھ دیا ہے۔عالمی تنظیم نےایسےخدشات کا حوالہ دیا ہے کہ دہائیوں پرانی جانوروں کی بیماری کے اصل نام کو امتیاز اور نسل پرستی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے صحت کےادارے نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ ایم پوکس، مونکی پوکس کے لیے اس کا نیا ترجیحی نام ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مونکی پوکس اور ایم پوکس دونوں ہی نام اگلے سال استعمال کیے جائیں گے جب کہ پرانے نام کو مرحلہ وار ختم کیا جائے گا۔
" ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ اسے "اس نسل پرستانہ اور بدنما زبان پر تشویش ہے جو 100 سے زیادہ ممالک میں مونکی پاکس پھیلنے کے بعد سامنے آئی"۔
SEE ALSO: عالمی ادارۂ صحت نے مونکی پوکس کو ’گلوبل ہیلتھ ایمر جنسی‘ قرار دے دیاعالمی ادارہ صحت کے مطابق متعدد افراد اور ممالک نے تنظیم سے کہا تھا کہ وہ "نام تبدیل کرنے میں پیش رفت کا کوئی راستہ تجویز کرے۔"
ڈبلیو ایچ او نے مونکی پاکس کے پھیلاؤ کو عالمی ایمرجنسی قراردینے کے تقر یبأ فوراّ بعد، اس بیماری کا نام تبدیل کرنے کے بارے میں ماہرین سے مشورہ کرنا شروع کردیا تھا۔
اب تک، درجنوں ایسے ملکوں میں اس مرض کے80,000 سے زیادہ کیسز کی نشاندہی کی گئی ہے جنہوں نے اس سے پہلے چیچک سے مماثل اس بیماری کے کسی کیس کی اطلاع نہیں دی تھی۔
مئی تک، مونکی پاکس نامی اس بیماری کے بارے میں ، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جانوروں میں پیدا ہوتی ہے، وسطی اور مغربی افریقہ سے باہر کسی بڑے پھیلاؤ سے متعلق کوئی اطلاعات نہیں تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
عالمی سطح پر 10 سب سے زیادہ متاثرہ ملک اور وہاں مریضوں کی تعداد
ریاستہائے متحدہ امریکہ (29,001)، برازیل (9،905)، اسپین (7،405)، فرانس (4،107)، کولمبیا (3،803)، برطانیہ (3،720)، جرمنی (3،672)، پیرو (3،444) میکسیکو (3,292)، اور کینیڈا (1,449)۔
ایجنسی فرانس پریس کی رپورٹ کے مطابق، عالمی سطح پر یہ کیسز کی مجموعی تعداد کا 86 فیصد ہیں۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ بیلجیم اور اسپین میں جنسی تعلقات کے ذریعے مونکی پاکس کے پھیلاؤ نے مغربی ممالک میں اس وبا کو جنم دیا۔
امیر ممالک میں ٹارگٹڈ ویکسینیشن اورکنٹرول مداخلت جیسی کوششوں کے نتیجے میں اس و با پر، جو موسم گرما میں اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی، اب زیادہ تر قابو پا لیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
افریقہ میں، یہ بیماری بنیادی طور پر متاثرہ جانوروں جیسے چوہوں اور گلہریوں کے ساتھ رابطے میں رہنے والے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔
منکی پاکس سے زیادہ تر اموات افریقہ میں ہوئی ہیں، جہاں تقریباً کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔
صحت کے امریکی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اس بیماری کو ختم کرنا ناممکن ہو سکتا ہے، اور انتباہ کیا ہے کہ یہ آنے والے برسوں تک بنیادی طور پر ہم جنس پرستوں اور ابیلنگی مردوں کے لیے ایک مسلسل خطرہ رہ سکتی ہے۔
"منکی پاکس" نام کا پس منظر
Mpox کو سب سے پہلے monkeypox کا نام 1958 میں اس وقت دیا گیا،تھا جب ڈنمارک میں طبی تحقیق میں استعمال ہونے والے بندروں میں "پاکس جیسی" بیماری کا مشاہدہ کیا گیا۔
نئی بیماریوں کے نام کیسے تجویز کئے جاتے ہیں؟
اگرچہ ڈبلیو ایچ او نے متعدد نئی بیماریوں کے سامنے آنے کے فوراً بعد نام دیا ہے، جن میں سیویئر ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم، یا سارس اور کوویڈ۔19 شامل ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایجنسی نے پہلی بار نام رکھے جانےکے کئی دہائیوں بعد کسی بیماری کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔
جاپانی انسیفلائٹس، جرمن خسرہ، ماربرگ وائرس اور مڈل ایسٹرن ریسپائریٹری سنڈروم سمیت متعدد دیگر بیماریوں کا نام جغرافیائی علاقوں کے نام پر رکھا گیا ہے، جنہیں اب تعصب پر مبنی سمجھا جا سکتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے ان ناموں میں سے کسی کو تبدیل کرنے کی تجویز پیش نہیں کی ہے۔
اس رپورٹ کےلئے معلومات ایسسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔