کرکٹ کے بعض مبصرین کے خیال میں اگرچہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سرفراز احمد نے 2017 میں آئی سی سی چیمئنز ٹرافی میں کامیابی دلانے کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا تھا البتہ اب ان کے ستارے گردش میں ہیں۔
اِس وقت وہ نہ تو قومی ٹیم کے کپتان ہیں اور نہ ہی مستقل کھلاڑی۔ بلکہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں شامل کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کپتان کے طور پر بھی انہیں سخت تنقید کا سامنا ہے۔
سرفراز احمد کی بیٹنگ اور وکٹ کیپنگ سے تو اب بھی کسی کو مسئلہ نہیں۔ مبصرین کے مطابق مسئلہ ہے تو ان کی قیادت کے طریقۂ کار سے، جس میں وہ کھلاڑیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر کام کرنے کے زیادہ قائل لگتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق اگر ان کی ٹیم جیت رہی ہوتی توایسے میں کسی کو برا نہیں لگتا۔ البتہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا چار میں سے تین میچز ہار جانا اور پوائنٹس ٹیبل پر ٹاپ تھری پوزیشن سے پانچویں پوزیشن پر آنا لوگوں کی توجہ ان کی کپتانی کی طرف دلاتا ہے۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کی کامیابی میں کس کا ہاتھ تھا؟
مبصرین کے مطابق جمعرات کو کھیلے گئے میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی کامیابی میں جہاں ان کے بلے بازوں اور بالرز کاہاتھ تھا، وہیں مخالف ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کی کوتاہیوں کا بھی۔ بیٹنگ پچ پر ٹاس جیت کر فیلڈنگ کرنے کے فیصلے کا انہوں نے یہ کہہ کر دفاع کیا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ٹیم کے انتخاب میں تو زیادہ غلطیاں ان سے نہیں ہوئیں البتہ بیٹنگ آرڈر اور بالنگ چینجز کرتے وقت وہ جلد بازی کا شکار نظر آئے۔
انہوں نے آف اسپن آل راؤنڈر افتخار احمد کو پوری اننگز میں استعمال ہی نہیں کیا جس کی وجہ سے انہیں اننگز کا آخری اوور شاہد آفریدی سے کرانا پڑا۔
شاہد آفریدی جو ایونٹ میں کوئٹہ کی جانب سے اپنا پہلا میچ کھیل رہے تھے۔ انہوں نے پی ایس ایل کی تاریخ کی سب سے مہنگی بالنگ کی اور اپنے مقررہ چار اوورز میں 67 رنز دیے جس میں آخری اوور میں 20 رنز قابل ذکر ہیں۔
اس سے قبل پاور پلے میں کوئٹہ کی ٹیم کو چھ اوورز میں 91 رنز پڑ چکے تھے جو کہ اس سیزن کا ریکارڈ ہے۔
جب بیٹنگ کا وقت آیا تو سرفراز احمد نے جیمز وینس جیسے تجربے کار کھلاڑی کو اوپن کرانے کے بجائے نوجوان کھلاڑی عبدالواحد بنگلزئی سے اننگز کا آغاز کرایا ۔ جو 229 رنز کے تعاقب میں وہ آغاز فراہم نہ کرسکے جس کی ان سے توقع تھی۔
جیمز وینس پاور پلے ختم ہونے سے ایک گیند قبل بیٹنگ کرنے آئے اور صرف دو گیندوں کے بعد صفر کے اسکور پر واپس چلے گئے۔
بات یہیں ختم ہوجاتی تو ٹھیک تھا لیکن سرفراز احمد نمبر چار پر خود بیٹنگ کرنے آئے اور 13 گیندوں پر صرف 11 رنز کا ہی اضافہ کرسکے۔
ان کی وجہ سے گزشتہ میچ میں 13 گیندوں پر 30 رنز کی برق رفتار اننگز کھیلنے والا افتخار احمد نمبر چھ پر آ کر بھی کچھ نہ کرسکے۔
اننگز کے آخری اووروں میں محمد نواز 47 اورجیمز فالکنر 30 رنز کے ساتھ نمایاں تو رہے البتہ انہیں اتنی دیر سے بھیجا گیا کہ میچ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ مبصرین کے مطابق اگر انہیں 8 گیندوں پر4 رنز بنانے والے شاہد آفریدی اور سرفراز احمد سے پہلے بھیجا جاتا تو شاید کوئٹہ کی ٹیم کا میچ میں کوئی چانس ہوتا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سرفراز احمد نے گزشتہ میچ میں بھی افتخار احمد کی آل راؤنڈ صلاحیتیوں کا فائدہ نہیں اٹھایا تھا اور ان سے پہلے نئے کھلاڑی عاشر قریشی کو بیٹنگ کے لیے بھیجا تھا۔
افتخار احمد جنہوں نے رواں سیزن نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ اور قائد اعظم ٹرافی میں اپنی ٹیم کو کامیابی دلوائی، وہ گزشتہ سیزن میں اسلام آباد یونائیٹڈ کا حصہ تھے اور انہیں ان کی سابق ٹیم کے خلاف اسی طرح استعمال کیا جا سکتا تھا جیسے اعظم خان کو اسلام آباد نے کیا۔
سرفراز احمد اور سلمان بٹ کے درمیان کیا معاملہ ہوا؟
سرفراز احمد سوشل میڈیا پر بھی کافی متحرک ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات وہ تنازعات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سابق کپتان سلمان بٹ نے اپنے پرانے ساتھی سرفراز احمد کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ وہ جو بھی کر رہے ہیں اس سے ان کا اچھا تشخص نہیں بن رہا۔
بقول سلمان بٹ ، سرفراز احمد فیلڈ پر کھلاڑیوں سے بات نہیں کرتے بلکہ چیختے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان پر اپنا حکم چلاتے ہیں نہ کہ ٹیم کی قیادت کرتے ہیں۔
اس بیان کے جواب میں سرفراز احمد نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر ایک ایسا جواب دیا جس سے تنازع بن گیا۔
انہوں نے سلمان بٹ کا نام لیے بغیر کہا کہ پاکستان کو آن ڈیوٹی بیچنے والافکسر جب نیت پر بھاشن دے گا تو پھر خدا ہی حافظ ہے۔
سوشل میڈیا پر صارفین سرفراز احمد کی ناقص کارکردگی پر چپ نہ رہے۔
سوشل میڈیا صارفین کے مطابق محمد رضوان کی قومی ٹیم میں شمولیت اور اس کے بعد ان کی شاندار کارکردگی کے ساتھ ہی سرفراز احمد پر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان پر تنقید کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ اور ان کے چاہنے والوں کی تعداد کم ہوتی نظر آرہی ہے۔
سوشل میڈیا پر کوئی سرفراز احمد اور بابر اعظم کی قیادت کا محمد رضوان کی کپتانی کے اسٹائل کا موازنہ کرتا رہا۔
تو کسی نے سرفراز احمد کے اس رویے پر بات کی، جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔
ایک صارف نے ان کی جگہ افتخار احمد کو کپتانی سونپنےکی بات کی۔
تو کسی نے اس کی حمایت میں دلیل بھی دے ڈالی۔
سرفراز احمد پر تنقید کرتے ہوئے ایک صارف نے کہا کہ ایک چوکے کے بعد جہاں وہ بالر کوڈانٹتے ہیں وہیں متعدد چھکوں کے بعد وہ باقی بالرز کو مسکرا کر دیکھتے ہیں۔
ایک صارف نے سرفراز کو 'پریشان' قرار دے دیا۔
اور ایک صاحب نے کوئٹہ کی مینجمنٹ کو مشورہ دیا کہ اب سرفراز احمد کو ڈراپ کرنے کا وقت آگیاہے۔