پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے جب ایک سال قبل ملک میں وفاقی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تومعیشت کی بحالی کو اولین ترجیح بتایا گیا تھا۔
اُس وقت پاکستان کی قوم سے خطاب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے جہاں اپنے پیش رو عمران خان پر کھل کر تنقید کی تھی، وہیں ان کی معاشی پالیسیوں پر بھی نکتہ چینی کرتے ہوئےآنے والے مہینوں میں معاشی استحکام لانے کا وعدہ کیا تھا۔
اقتدار ملنے کے 12 ماہ گزرنے کے بعد کیا ملک میں کوئی معاشی استحکام آیا ہے یا معیشت بہتری کی جانب جا رہی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو اس وقت زیرِ بحث ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق گزشتہ سال اپریل کے شروع میں غیر ملکی زرِ مبادلہ کے مجموعی ذخائر تقریباً 11 ارب 42 کروڑ ڈالر تھے جو اس سال کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق اب چار ارب 20 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں۔
اسی طرح بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم میں بھی گزشتہ ایک سال کے دوران کمی دیکھی گئی ہے۔
رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں بیرون ملک سے 20 ارب 50 کروڑ ڈالر کی ترسیلاتِ زر بھیجی گئی۔ گزشتہ مالی سال کے ابتدائی نو ماہ میں یہ رقم 23 ارب ڈالر رہی تھی۔یوں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں ان نو ماہ میں ترسیلات زر کی مد میں 10.8 فی صد کمی ہوئی۔
پاکستان میں گزشتہ سال مارچ میں مہنگائی کی شرح 12.7 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی جو ادارۂ شماریات کے مطابق اب 35.37 فی صد ہو چکی ہے۔ ایک سال میں مہنگائی میں گزشتہ سال کی نسبت کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ غذائی اشیا کی قیمتیں شہری علاقوں میں 47 فی صد جب کہ دیہی علاقوں میں 50 فی صد سے زائد مہنگی ہوچکی ہیں۔
پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی شرح 1965 کے بعد سے ریکارڈ ہونے والی مہنگائی کی شرح میں سب سے بلند ترین سطح پر ہے۔اس کی ایک وجہ گزشتہ سال آنے والا تباہ کن سیلاب بھی بتایا جاتا ہے جس سے فصلوں کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔
دوسری وجہ روپے کی قدر میں بہت زیادہ کمی بتائی جاتی ہے۔ معاشی ماہرین کو خدشہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔
SEE ALSO: 13 جماعتوں کے 12 مہینے: ’مسلم لیگ ن نےکھویا زیادہ، پایا کم‘اسی طرح ملک میں اپریل 2022 میں شرح سود 12.25 فی صد تھی جو اب بڑھ کر 21 فی صد پر پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سےمبصرین کے مطابق قرضوں کا حصول خاص طور پر صنعتی شعبے کے لیے قرضے حاصل کرنا نا قابلِ عمل ہو چکا ہے۔
اگر تجارت کا موازنہ کیا جائے تو اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان نے مالی سال 2022 کے پہلے نو ماہ میں 23 ارب 35 کروڑ ڈالر کی اشیا برآمد کی تھیں جب کہ اسی عرصے کے دوران 58 ارب 85 کروڑ ڈالر کی اشیا درآمد کی گئی تھیں۔یوں گزشتہ مالی سال کے نو ماہ میں ملک کو تقریباً 35 ارب 50 کروڑ ڈالر کے بڑے تجارتی خسارے کا سامنا تھا۔
لیکن پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعد اگرچہ برآمدات میں تو کمی ہوئی لیکن درآمدات پر پابندیاں عائد کرکے مجموعی طورپر تجارتی خسارے میں کمی لائی گئی ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں پاکستان نے 21 ارب ڈالر کی برآمدات کیں جب کہ43 ارب 94 کروڑ ڈالر کی درآمدات ہوئی، یوں تجارتی خسارہ 22 ارب 90 کروڑ ڈالر رہا۔
تحریکِ انصاف کی حکومت کےتقریباً چار سال میں جہاں روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری رہا تو ایسا ہی پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی حکومت کے ایک سال میں بھی ہوا۔ اگست 2018 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوئی تو ایک امریکی ڈالر کی قیمت 116 روپے تھی۔ تاہم تحریک انصاف کی حکومت جب برسر اقتدار آئی تو اس کی قیمت بڑھ کر 122 روپے ہوچکی تھی۔
تحریک انصاف کی حکومت کے تین سال آٹھ ماہ کے بعد اپریل 2022 تک ایک امریکی ڈالر 189 روپےتک پہنچ گیا تھا۔ تحریک انصاف کے دور میں اس کی قدر میں 67 پاکستانی روپے یا 36 فی صد کے لگ بھگ کمی دیکھی گئی۔
SEE ALSO: جسٹس فائز عیسیٰ کی آئینی کنونشن میں شرکت؛ کیا جج کو سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھنا چاہیے؟پی ڈی ایم کی صرف ایک سال کی حکومت کے دوران روپیہ ڈالر کے مقابلے میں تقریباََ 97 روپے گرچکا ہے اور اب ایک امریکی ڈالر 286 روپے کے اردگرد موجود ہے یعنی ایک سال میں روپیہ66 فی صد مزید تنزلی کا شکار ہوا۔
مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت نے اقتدار میں آنے پر بتایا تھا کہ تحریکِ انصاف کی حکومت نے اقتدار میں پاکستان کے قرضوں میں 20 ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ کیا ہے جو 1947 سے 2018 تک 71سال میں اب تک تمام حکومتوں کی طرف سے لیے جانے والے مجموعی قرض کا 80 فی صد کے لگ بھگ ہے جب کہ اس معاملے کو شہباز شریف حکومت نے قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دیا تھا۔
مرکزی بینک کے مطابق جون 2018 میں غیرملکی قرضوں کا مجموعی حجم 95 ارب ڈالر تھا جو اب بڑھ کر 130 ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے۔
مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت ہو یا مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں پی ڈی ایم حکومت، دونوں ہی کے ادوار میں ملک پر بیرونی اور اندرونی قرضوں کے حجم میں اضافہ ہوا ہے۔
اسی طرح ملک میں ٹیکس وصولیوں کی شرح ہدف سے کم رہنے کے ساتھ بجلی، گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ مگر اس کے باوجود بھی گردشی قرضوں کا بوجھ کم نہ ہوسکا۔
اعداد و شمار کے مطابق بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے میں صرف گزشتہ آٹھ ماہ میں 419 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جس کے ساتھ مجموعی گردشی قرضہ 2600ارب روپے سے تجاوزکر چکا ہے۔
ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ حکومت کا قرض پر انحصار بڑھنا خود ایک مسئلہ بن چکا ہے اور ملک کو در پیش مسائل کا حل قرض نہیں بلکہ پیداواری صلاحیت بڑھانے میں ہے۔
SEE ALSO: پارلیمان کا مشترکہ اجلاس: چیف جسٹس کے اختیارات محدود کرنے کا بل منظورماہرِ معاشیات عبدالعظیم کہتے ہیں کہ گزشتہ ایک سال میں ملک معاشی بدحالی کا شکار ہوکر ڈیفالٹ کے قریب آیا ہے اور ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔
ان کے خیال میں فی الحال تو ملکی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی نظر نہیں آ رہی، نہ ہی ایسے آثار نظر آتے ہیں۔ان کے بقول اس کی بنیادی وجہ پہلے حکومت کے غیر فیصلہ کن انداز اور پھر سیاسی بے یقینی رہی۔
ان کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے لیے برسر اقتدار آتے ہی جو فیصلے معاشی استحکام کے لیے کرنا انتہائی ضروری تھے اس میں تاخیر کی گئی۔ مثال کے طور پر تحریکِ انصاف کی جانب سے تیل کی قیمتوں پر دی گئی سبسڈی فوری واپس لینے اور آئی ایم ایف سے نئی قسط کے لیے مذاکرات شروع کرنے میں بلاوجہ کی تاخیر کی گئی۔
ان کے بقول دوسری وجہ عمران خان کی موجودہ حکومت کے خلاف تحریک کے باعث سیاسی کشمکش، ضمنی انتخابات میں اپوزیشن جماعت کی کامیابی، دو صوبائی اسمبلیاں توڑنے اور پھر قومی سطح پر انتخابات نہ کرانے کے فیصلے خود پی ڈی ایم اور ملکی معیشت کو کافی مہنگے ثابت ہو رہے ہیں۔
عبدالعظیم کا مزید کہنا تھا کہ سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے بعض درست اقدامات کرکے معیشت کو مکمل تباہی سے کسی حد تک نکالنے کی کوشش کی تھی جس میں سب سے اہم آئی ایم ایف کا قرض پروگرام بحال کرنا اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا شامل تھا۔
لیکن ان کے مطابق ایک قدم آگے جاکر دو قدم پیچھے تب جانا پڑا جب مفتاح اسماعیل کی جگہ آنے والے نئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ماضی میں اپنائی گئی اپنی پالیسی کے تحت روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر بڑھاکر رکھا تاکہ ملک کے اندر مہنگائی کی شرح کو کنٹرول میں رکھ کر سیاسی فائدہ لیا جاسکے۔ لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوسکا۔
ان کا کہنا تھا کہ اعلانات اور دعوؤں کے باوجود پی ڈی ایم حکومت نہ صرف ٹیکس نیٹ کو مزید بڑھانے میں ناکام رہی بلکہ ٹیکس کلیکشن میں کمی دیکھی گئی۔ اسی طرح غیر ملکی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی ہوئی اور تقریباََ چھ ماہ سے معطل شدہ آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرانے میں اب تک حکومت ناکامی کا سامنا کر رہی ہے۔
SEE ALSO: سیلاب کے چند ماہ بعد پاکستان میں آبپاشی کے لیے 27 فی صد پانی کی کمیانہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کو بحال کرنے میں حکومت چین اور اعلانات کی حد تک سعودی عرب کو کچھ قرض رول اوور کرنے میں کامیاب تو ہوئی ہے لیکن ابھی اس معاملے میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ تب ہی پروگرام کی بحالی کے کوئی اثرات پیدا ہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے پہلی حکومت نے معیشت کو تباہ کردیا تھا۔ تحریکِ انصاف کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معائدے پرعمل درآمد نہ کرنے کا سیاسی نقصان ہم نے اٹھایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی پہلی ترجیح ملک کو ڈیفالٹ کے خطرے سے بچانا تھا اور اس کے لیے بعض مشکل فیصلے بھی کرنا پڑے۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول ایگریمنٹ جلد ہوجائے گا۔ حکومت کے مشکل مگر بہتر معاشی فیصلوں کے مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فی صد اضافہ ہوچکا ہے ایسی صورتِ حال میں حکومت عوام کو ہر ممکن ریلیف فراہم کرنے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔