عاصم علی رانا وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔
سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بین الاقوامی فورم ہیگ میں قائم پرمننٹ کورٹ آف آربٹریشن (پی سی اے) نے پاکستان کی جانب سے دی گئی درخواست پر پاکستانی مؤقف قبول کرتے ہوئے بھارتی اعتراضات مسترد کردیے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے متعدد کیسز میں نامزد کیا گیا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مقدمات میں گرفتاری کی صورت میں فوج عمران خان کو تحویل میں لے سکتی ہے۔ مزید تفصیل بتا رہے ہیں عاصم علی رانا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان عدالت پہنچے تو آج ان کے مختلف عدالتوں میں کئی کیسز لگے ہوئے تھے اور سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کونسا کیس کہاں لگا ہے۔ البتہ عمران خان کے وکلا تیاری میں تھے اور عمران خان کو ایک عدالت سے دوسری اور دوسری سے تیسری میں لیکر جاتے رہے۔
انٹرنیٹ پر صارفین کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ وزیردفاع کا یہ بیان غیرضروری اور حقیقت کے خلاف ہے کیوں کہ سوشل میڈیا کو روکنے سے پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر میں اربوں روپے کا نقصان پہلے ہو چکا ہے اور آئندہ ایسے اقدامات سے عالمی سطح پر پاکستان کا نام خراب ہو گا۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب پاکستان کے پاس وقت کم ہے اور اگر آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں کے درمیان معاہدہ نہ ہوا تو یہ پروگرام ختم ہو جائے گا۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف کا کہنا ہے کہ نو مئی کے واقعات کے بعد فوج میں خود احتسابی جاری ہے۔ اب تک ایک لیفٹننٹ جنرل سمیت تین اعلیٰ افسران کو بر طرف کیا جا چکا ہے جب کہ تین میجرجنرلز اور سات بریگیڈیئرز سمیت 15 افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی ہے۔ اسلام آباد سے عاصم علی رانا کی رپورٹ۔
بجٹ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ایوان میں پیش کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ سے الگ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ "جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں ہوتا میں اس بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا، میں اس بینچ کو عدالت ہی نہیں مانتا۔ میں معذرت چاہتا ہوں، ججز کو زحمت دی۔"
سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے۔ مگر بعد ازاں انہوں نے خود کو بینچ سے الگ کردیا۔ سپریم کورٹ میں آج کیا کچھ ہوا؟ بتا رہے ہیں عاصم علی رانا۔
پاکستان میں حکومت کا معاشی بحالی کے منصوبے کا اعلان اور فوج کا اس کی حمایت کا معاملہ موضوعِ بحث ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشی میدان میں بہتری کے لیے فوج کی حمایت ناگزیر ہے جب کہ کچھ مبصرین کہتے ہیں کہ معاشی مسائل حل کرنا منتخب حکومت کا ہی کام ہے۔
بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کا دورۂ امریکہ جہاں نئی دہلی اور واشنگٹن ڈی سی کے لیے اہمیت رکھتا ہے، وہیں یہ دورہ دنیا کے کئی ممالک کی طرح اسلام آباد میں بھی توجہ کا مرکز ہے۔
اپنی ملازمت چھوڑنےکی وجوہات کے بارے میں چیئرمین نادرا نے استعفے میں لکھا کہ ان کے لیے پولرائزڈ سیاسی ماحول میں کام کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ کسی بھی پروفیشنل کے لیے ایمانداری اور آزادی سے ایسے ماحول میں کام کرنا مشکل ہوتا ہے جہاں ہر وقت 'ہمارے اور تمہارے لوگ' کا کہا جائے۔
حسن عسکری کی بہن زہرہ عسکری نے وائس آف امریکہ کے بھیجے گئے پیغام پر ان کی رہائی کی تصدیق کی اور کہا کہ ملٹری کورٹ آف اپیل نے ان کی اپیل منظور کر لی جس کے بعد انہیں رہا کردیا گیا ہے۔
عادل راجہ اس وقت سوشل میڈیا پر مشہور ہوئے جب عمران خان حکومت ختم ہونے پر انہوں نے اس کا الزام پاکستانی فوج کے بعض افسران پر عائد کیا۔ ان میں سے ایک افسر بریگیڈیئر راشد نے لندن میں اُن کے خلاف کیس کر رکھا ہے۔
پاکستان میں نئے مالی سال کے بجٹ کا اعلان کردیا گیا ہے، آئندہ بجٹ میں 200 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔ حکومت نے کچھ چیزوں پر ٹیکس کم یا پھر مکمل طور پر ختم کردیےہیں جبکہ کچھ اضافی ٹیکس بھی عائد ہوئے ہیں۔
ایک صحافی نے سوال کیا کہ کل جہانگیر ترین کے ساتھ بیٹھے لوگوں میں سے آپ کو کس کے جانے کا سب سے زیادہ افسوس ہوا؟ اس پر عمران خان مسکرانے لگے۔ لیکن جب صحافی نے کہا اچھا کس کے جانے پر سب سے زیادہ خوشی ہوئی؟ تو عمران خان کھلکھلا کے ہنس پڑے اور کوئی جواب نہ دیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ فوجی اعلامیے میں نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا پیغام دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ فارمیشن کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ بغیر تحقیقات کے ہی ایک جماعت کو موردِالزام ٹھہرا رہا ہے۔
شاہ محمود قریشی کو 9 مئی کے روز پیش آنے والے واقعات کے بعد اسلام آباد سے گرفتار کرلیا گیا تھا،اور انہیں اندیشہ ہائے نقص امن کے پیش نظر 3 ایم پی او کے تحت نظر بند کیا گیا تھا۔ اس کے بعد انہیں مختلف کیسز میں نامزد کیا گیا اور کئی مرتبہ ضمانتیں ہونے کے باوجود انہیں رہائی نہ مل سکی تھی۔
نجی ٹی وی چینل 'سنو' کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر احمد ولید کہتے ہیں کہ پیمرا نے جو احکامات دیے ہیں وہ جنرلائز ہیں۔ ہم تو پہلے سے ہی ریاست مخالف عناصر کو وقت نہیں دے رہے تھے اور ایسی کسی بھی شخصیت کو میڈیا پر نہیں لایا جاتا لیکن جو پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں وہ مسائل پیدا کر رہی ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے سیاسی استحکام کے لیے جلد یہ بدیر انتخابات ہی واحد راستہ ہیں تاہم موجودہ حالات میں اس بارے میں بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
مزید لوڈ کریں