عاصم علی رانا وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔
ریویو آف ججمنٹ ایکٹ میں آئین کی شق 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کے کیے گئے تمام فیصلوں پر لارجر بینچ کے سامنے نظر ثانی بصورتِ اپیل دائر کرنے کا حق دیا گیا تھا۔
عمومی طور پر نگراں سیٹ اپ صرف 60 سے 90 روز تک کے لیے ہوتا ہے لیکن نئی مردم شماری کے تحت آئندہ انتخابات کروائے جانے کے فیصلے کے بعد یہ بات واضح طور پر نظر آرہی ہے کہ نگراں وزیراعظم کی مدت چھ ماہ یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے پشاور میں قبائلی جرگے سے خطاب میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو 'خوارج' کہتے ہوئے ان کے خلاف 'جہاد' کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ عمران خان پارٹی چیئرمین ہیں اور رہیں گے۔ ان کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ شاہ محمود قریشی کے بقول عمران خان نے ایک کور کمیٹی بنائی ہے جس کی میں صدارت کرتا ہوں۔ عمران خان کی غیر موجودگی میں کور کمیٹی اتفاقِ رائے سے فیصلے کر رہی ہے۔
عمران خان عدالت سے تین سال کی سزا کے بعد پانچ سال کے لیے نااہل ہو گئے ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق عمران خان فی الحال انتخابی سیاست کی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں۔ مگر ان کے پاس آپشنز موجود ہیں۔ وہ کیا آپشنز ہو سکتے ہیں؟ جانیے عاصم علی رانا کی اس ویڈیو میں۔
توشہ خانہ کیس کے فیصلے کے بعد پولیس نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو گرفتار کر لیا ہے۔ عدالت نے عمران خان کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ تحریکِ انصاف نے اسلام آباد کی سیشن عدالت کے جج کے فیصلے کو متعصبانہ قرار دیا ہے۔ مزید تفصیل بتا رہے ہیں عاصم علی رانا۔
سیشن کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے ہفتے کو توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سنایا اور قرار دیا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے تحائف لیے اور اپنے اثاثوں میں جعلی اسٹیٹمنٹ جمع کرائی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ عمران خان اپنے گوشواروں میں جیولری دکھانا نہیں چاہتے اور توشہ خانہ کا لفظ فارم بی میں انہوں نے کہیں نہیں لکھا۔ تمام فارمز میں چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ جیولری کا ایک تولہ بھی نہیں رکھتے۔
عمران خان نے ٹرائل کورٹ میں گواہوں کے حتمی دلائل سے قبل حقِ دفاع کے معاملے کو نہ صرف ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے بلکہ عدالت سے آج ہی سماعت کرنے کی استدعا بھی کی ہے۔
قومی اسمبلی نے سیکریٹ ایکٹ 1923 میں ترامیم کا بل منظور کرلیا ہے جس میں زمانۂ جنگ کے ساتھ زمانۂ امن کو بھی شامل کیا جاسکے گا۔ حکومت کو حالت امن میں بھی کسی بھی جگہ، علاقے، بری یا بحری راستے کو ممنوع قرار دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ توشہ خانہ کے تحائف انہوں نے ذاتی طور پر نہیں بلکہ اپنے ملٹری سیکریٹری کے ذریعے فروخت کیے تھے۔ توشہ خانہ کیس میں عمران خان نے اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا ہے۔ عمران خان کے بیان کے بارے میں مزید تفصیل بتا رہے ہیں عاصم علی رانا۔
ایڈوائزری کے مطابق یورپی ایئرلائنز کو پاکستان سے پرواز کے وقت 26 ہزار فٹ سے زیادہ اونچائی پر پرواز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
بل میں تجویز کردہ ترامیم کے مطابق حساس منصب پر تعینات رہنے والے فوجی افسران کو پانچ برس تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر پابندی ہوگی۔ اس پابندی کی خلاف ورزی پر دو برس تک سخت سزا ہوگی۔
غائب ہونے والے دونوں طالب علموں کی شناخت جواد اقبال اور زید عبدالرسول کے نام سے ہوئی ہے۔ جواد قائداعظم یونیورسٹی میں الیکٹرانکس ڈیپارٹمنٹ کے پانچویں سمسٹر میں تھا جبکہ زید نے بھارہ کہو کے ایک کالج سے حالیہ دنوں میں ایف ایس سی کیا تھا اور ابھی قائداعظم یونیورسٹی میں داخلے کے مرحلہ میں تھا۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اس کیس میں جرم ثابت ہونے پر عمران خان کو تین سال قید اور نااہلی کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس کیس میں اب تک کیا کچھ ہو چکا ہے اور عمران خان کی قانونی ٹیم کیا کر رہی ہے؟ بتا رہے ہیں عاصم علی رانا۔
بچی کے والد کے مطابق 23 جولائی کو وہ اپنی بیٹی سے ملنے جج کے گھر آئے تو وہاں ایک کمرے میں بچی موجود تھی جو رو رہی تھی۔
پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ لیکن کم یونٹ استعمال کرنے والے غریب صارفین پر اس کا اثر نہیں پڑے گا۔
سابق وزیرِ اعظم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں متعدد معاملات پر درخواستیں دائر کی ہیں جن میں توشہ خانہ اور سائفر کے کیس کے قابلِ سماعت ہونے سمیت دیگر پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کیے ہیں۔
جمعے کو سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے نو مئی کے واقعات پر ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے فیصلوں میں تفصیلی وجوہات کا ذکر ہونے سے متعلق سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروا دی۔
نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد اُنہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ لیکن ان کے خلاف مزید نئے مقدمات درج ہوئے اور انہیں اس روز ریاستی اداروں پر ہونے والے حملوں کا منصوبہ ساز بھی قرار دیا گیا۔
مزید لوڈ کریں