سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے بغیر عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کے بیان کو سیاسی و صحافتی حلقے 'مائنس ون' فارمولا سے تعبیر کر رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے پاکستان میں عام انتخابات آئندہ سال جنوری میں کرانے کے اعلان پر ملک کی سیاسی جماعتوں نے ملے جلے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا الیکشن کے مہینے کے اعلان پر کیا کہنا ہے؟ جانیے علی فرقان کی اس رپورٹ میں۔
پاکستان میں نگراں حکومت کے قیام کے بعد اور آئندہ چند ماہ میں ممکنہ عام انتخابات سے قبل سیاسی ماحول میں تیزی آ رہی ہے جب کہ گزشتہ حکومت کی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان بیان بازی شروع ہو گئی ہے۔
نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان کو اگرچہ مغربی اور مشرقی محاذ پر خطرات کا سامنا ضرور ہے لیکن یقین ہے کہ بیک وقت سرحدی خطرات پر بھی قابو پائیں گے اور انتخابی عمل بھی بلا رکاوٹ مکمل کرائیں گے۔
پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ امن و امان اور سرحدی صورتِ حال کے باعث سرِ دست عام انتخابات کے التوا کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کو مغربی اور مشرقی محاذ پر خطرات کا سامنا ہے لیکن یقین ہے کہ بیک وقت سرحدی خطرات پر بھی قابو پا لیں گے۔
سابق گورنر پنجاب اور عمران خان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ کہتے ہیں کہ اُنہیں اُمید ہے کہ نئے چیف جسٹس فائز عیسیٰ 90 روز میں الیکشن یقینی بنائیں گے۔ وائس آف امریکہ کے علی فرقان کو دئے گئے انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی کے درمیان مفاہمت ہو جائے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ سیاست ناممکنات کا کھیل نہیں ہے اور ان کی جماعت اگر 'ضیاء الحق کی باقیات' کے ساتھ ہاتھ ملا سکتی ہے تو پی ٹی آئی سے اتنے تعلقات خراب نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ مل کر سیاست نہ کر سکیں۔
ایرانی وزارت خارجہ کے جاری بیان کے مطابق منگل کو تہران میں ہونے والی ملاقات میں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے کہا کہ خطے بالخصوص افغانستان میں امن و استحکام کے لیے ایران اور پاکستان کا کردار اہم ہے۔
آصف علی زرداری نے بیان دیا کہ مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن (ای سی پی) نئی حلقہ بندیاں کرنے کا پابند ہے اور زور دیا کہ الیکشن کمیشن آئین کے مطابق الیکشن کروائے۔
وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں غیر ملکی زرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے کہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ تمام سیاسی جماعتوں کو آئندہ انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کی اجازت ہوگی۔
جمعرات کو صحافیوں کے ساتھ ایک غیر رسمی بریفنگ میں نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ طالبان حکومت نے پاکستان میں حملوں میں ملوث کچھ دہشت گردوں کو گرفتار کر کے اسلام آباد کو آگاہ کیا ہے۔
نگراں وزیرِ اطلاعات مرتضی سولنگی کے مطابق انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے مکمل نظام الاوقات بتا دیا ہے۔ الیکشن ایکٹ کے مطابق انتخابی مہم کے لیے 54 دن درکار ہوتے ہیں اور حلقہ بندیوں کے بعد انتخابی مہم کے وقت کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا۔
نگراں وفاقی وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کہتے ہیں کہ پرامن، آزادانہ اور شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی مدد کرنا ہماری آئینی ذمہ داری ہے۔ وائس آف امریکہ کے علی فرقان کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ محدود مدت اور اختیار میں نگراں حکومت لوگوں کے لیے جو کرسکی وہ کرے گی۔
صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھا کہ خدا گواہ ہے کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے کیوں کہ وہ ان قوانین سے متفق نہیں تھے۔
تقریب کا وقت پانچ بجے رکھا گیا تھا، وقت سے پہلے ہال میں پہنچا تو صحافی، ایوانِ صدر کا عملہ اور وفاقی سیکریٹریز بھی وزرا کے ناموں سے لاعلم تھے۔
اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد نے کہا ہے کہ نگراں وزیرِ اعظم کے لیے نام فائنل کر لیے ہیں اور امید ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات میں کسی ایک نام پر اتفاق ہو جائے گا۔ ان کے بقول الیکشن میں تاخیر ہوسکتی ہے اور ممکن ہے کہ الیکشن مارچ 2024 تک ہوں۔ راجہ ریاض کا انٹرویو دیکھیے علی فرقان کے ساتھ۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں رؤف حسن کا کہنا تھا کہ عمران خان کی رہائی کے لیے عدالت سے ماورا کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ان کے بقول عمران خان کی واضح ہدایات ہیں کہ ہم عدالتوں سے ہی معاملات کا حل چاہتے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے کہا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے باوجود پارٹی کے امور چل رہے ہیں۔ عمران خان جہاں بھی ہوں، پارٹی کی قیادت وہی کریں گے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رؤف حسن کا کہنا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری سے ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
ذرائع کے مطابق نگراں حکومت میں وزیرِ اعظم، وزیرِ خزانہ اور دیگر اہم عہدوں پر تعیناتیوں کے لیے ناموں پر غور جاری ہے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ مقتدر حلقے بھی اس سارے عمل میں شامل ہیں۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ابھی تو توشہ خانہ میں عمران خان کو گرفتار کیا ہے، انہیں 190 ملین پاؤنڈ، فارن فنڈنگ، سائفر اور نو مئی کے کیسز کا جواب دینا باقی ہے۔ وائس آف امریکہ کے علی فرقان کے ساتھ مریم اورنگزیب نے مزید کیا گفتگو کی؟ دیکھیے اس ویڈیو میں۔
مزید لوڈ کریں