ایک رپورٹ کے مطابق 2020 میں پاکستان دنیا بھر میں چائے درآمد کرنے والے ممالک میں سرفہرست تھا۔ پاکستان نے 64 کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر کی چائے درآمد کی تھی۔
امریکہ میں رواں برس ایوانِ نمائندگان کے وسط مدتی انتخابات میں جہاں دیگر اقلیتیوں سے تعلق رکھنے والے امریکی شہری حصہ لے رہے ہیں، وہیں بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستانی امریکیوں کو سیاسی تنظیم سازی کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
’’ہمارا معاشرہ جنسی طور پر بٹا ہوا ہے۔ یہاں ’سیکشوئلٹی‘ پر تجربہ کرنے کے بہت کم مواقع ہیں۔ لوگوں کی چھوٹی عمر میں شادی ہوجاتی ہے۔ عمران خان بقول ان کے گھٹے ہوئے مردانہ معاشرے میں آزادی کا ایک احساس فراہم کرتے ہیں۔‘‘
’’پاکستان ایک سیکیورٹی اسٹیٹ ہے جہاں بظاہر جمہوریت ہے لیکن در حقیقت ایک ’ہائیبرڈ رجیم‘ ہے جس میں’ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار بہت زیادہ ہے اور ہماری سیاسی اشرافیہ اقتدار کی سیاست کے لیے انہی ایجنسیوں سے معاملہ کرتی ہے۔ ‘‘
اس کونسل کی صدارت وزیراعظم کریں گے۔ اس کے ممبران میں شاہد کاقان عباسی، احسن اقبال، وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل، سلیم مانڈوی والا، وزیر اطلاعات مریم ائرانگزیب، ڈاکٹر عائشہ غوث، مصدق ملک، طارق پاشا، میاں محمد منشا، عارف حبیب اور دیگر شامل ہیں۔
’’بالآخر ہدف یہی ہے کہ پچاس فیصد پاکستانی باقی کے پچاس فیصد افراد کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
سابق امریکی سفیر بل مائلم نے کہا کہ ماضی میں تحریک انصاف بھی امریکی سفارت کاروں کے دوسری پارٹیوں کے عہدے داران سے ملنے پر اعتراضات اٹھاتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی ملاقاتیں ان سفارت کاروں کے کام کا حصہ ہوتی ہیں اور موجودہ دورہ بھی معمول کی ملاقات ہے۔
تحریک انصاف کے برطانیہ میں ہونے والے ایک مظاہرے کے دوران ایک ویڈیو میں تحریک انصاف کے کچھ حامی 'نو عمران، نو ریمٹنسز' کا نعرہ لگاتے دیکھے گئے۔ اس نعرے سے مراد ہے کہ اگر عمران خان پاکستان کے وزیرِ اعظم نہیں رہتے تو بیرونِ ملک پاکستانی ملک میں سرمایہ نہیں بھیجیں گے۔
نیو امیرکن سیکیورٹی میں انڈو پیسیفک سیکیورٹی پروگرام کی ڈائریکٹر لیزا کرٹس کہتی ہیں امریکہ کے پاس پاکستان کی اندرونی سیاسی صورتِ حال میں دلچسپی لینے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ واقعی وہ چیز ہے جس کا فیصلہ پاکستان کے عوام کو کرنا ہے۔
پاکستان میں لینڈ مائنز کے متاثرین کا ڈیٹا جمع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں حالیہ برسوں میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کیے جانے والے آپریشنز کے بعد جب لوگ اپنے علاقوں میں واپس گئے تو بارودی سرنگوں کے دھماکوں کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
’’عوام میں امریکہ مخالف جذبات بھڑکانے سے شاید وزیراعظم خان کو فوری فائدہ ہو اور اگر وہ اپنی کرسی بچانے میں کامیاب بھی ہوگئے تو بھی اس سے مستقبل میں بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ تعلقات مزید زہر آلود ہونے کا خطرہ ہے۔‘‘
وائس آف امریکہ کے نئے سیٹلائٹ چینل میں ’ٹی وی آشنا‘ کی معروف نشریات، اس کے خواتین کے شو ’اتصال‘، ریڈیو فری یورپ، ریڈیو لبرٹی کے آزادی ریڈیو کی نشریات، دیگر پروگرامز کے علاوہ مزید ایسے پروگرام بھی پیش کیے جائیں گے جن پر کام جاری ہے۔
نو مارچ کو امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ کے نام لکھے گئے خط میں تین امریکی قانون سازوں اسکاٹ پیری، ڈبلیو گریگری اسٹوبے اور میری ای ملر نے مسعود خان پر مقامی دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات، اور ہمدردی رکھنے کا الزام لگایا تھا۔ ان قانون سازوں نے حکومت سے اپیل کی تھی کہ وہ اس سلسلے میں مکمل تحقیق کرے۔
’’احمدیوں کے اشو کو اٹھانا پاکستان میں باقی اقلیتوں کی نسبت آسان ہے۔ ایسے میں اپنے آپ کو ہیرو بنانے کے لیے وہ یہ مسئلہ اٹھا لیتے ہیں، اس کے بعد کوئی آپ کو چھو نہیں سکتا۔ یہ آُپ کو ایک مضبوط پوزیشن بخشتا ہے۔‘‘ ا
’’اس ملبے میں آپ کو ہر قسم کی معلومات مل سکتی ہیں، جیسے کس قسم کے سرکٹ آپ کو ملتے ہیں، کیا دھاتیں اس میں استعمال ہوئی ہیں، اور اس کے مواد پر ہر قسم کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ ملبہ ہے لیکن اس میں سے بہت کچھ ہے جس کی ’ریورس انجنئیرنگ‘ کی جا سکتی ہے۔‘‘
’اگر پاکستان افغانستان میں موجود داعش خراسان اور القاعدہ کی جانب سے خطرے کو کم کرنے میں امریکہ کی مدد کرتا ہے تو کاؤنٹر ٹیررازم میں دونوں ممالک میں تعاون ہوتا نظر آتا ہے'‘
پچھلے کئی مہینوں سے ٹوئٹر پر فیمن ازم یعنی عورتوں کے مساوی حقوق کے موضوع پر سینکڑوں سپیسز منعقد ہو چکی ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں ٹوئٹر صارفین نے حصہ لیا اور ہر سپیس میں عورتوں کے حقوق پر گھنٹوں مکالمے منعقد ہوئے۔
اس وقت یہ معلوم نہیں کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی جانب سے فضائی حدود کے استعمال کی اجازت کی عدم موجودگی میں امریکہ ایسے آپریشن کیسے کرے گا۔
کیا جنرل ضیاالحق کے دور میں ثقافت کے ’سنہری دور‘ کو مخصوص نظریات کی ترویج کے لیے استعمال کیا گیا؟ پاکستان کے دانشور، صحافی، مصنف اور ثقافتی نقاد اس بارے میں کیا کہتے ہیں، تفصیلی رپورٹ پڑھنے کے لئے کلک کیجے اور ہمیں بتائیے کہ آپ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
’پیس بلڈرز‘ کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے بھی نئے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں اور جہاں پہلے فیس بک اور ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال ہوتا تھا، وہیں اب زوم اور ویڈیو کانفرنس کے نئے ذرائع استعمال کر کے دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لا رہے ہیں۔
مزید لوڈ کریں