افغانستان میں خواتین کی صحت اورمقامی ڈاکٹروں کی میڈیکل ایجوکیشن کی بہتری کے لیے اسلامی ترقیاتی بینک کی فنڈنگ اور ایڈو کاسٹ اور اے سی اے کے اشتراک سے ٹیلی ہیلتھ کا ایک نیٹ ورک قائم کیا جارہا ہے جو چھ شہروں کابل ، جلال آباد ، قندھار ، ہرات ، مزار شریف اور خوست کےاسپتالوں میں مرکوز ہو گا۔
اسلامی ترقیاتی بینک کی عہدیدار کرسٹونیا لوک ہارٹ نےاقوام متحدہ کے اندازوں کےحوالےسے بتایا کہ دستیاب ٹیکنالوجیز خواتین کو ترقی کے عمل میں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہیں کیوں کہ انہیں مردوں کے مقابلے میں ٹیکنالوجیز اور ان کے استعمال کے مساوی مواقع حاصل نہیں ہیں ۔
عبد اللہ بٹ اور ڈاکٹر جہاں آرا کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں مقیم ہزاروں آؤٹ آف پریکٹس اور اپنے پروفیشن سےکٹ جانے والی پاکستانی خواتین ڈاکٹرز کوان کے پروفیشن میں واپس لانے کا ایْڈو کاسٹ اور ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا مشن جاری رہے گا
مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر پروفیسر فرح عباسی کہتی ہیں کہ سب سے بڑا نفسیاتی مسئلہ جو کسی بیرون ملک میں سکونت اختیار کرنے والے افغان تارکین وطن کو درپیش ہوگا، وہ "کلچرل بریومنٹ " ہے، جسےاپنا کلچر، اپنی اقدار ، اپنی زبان،اور اپنی روایات سے بچھڑنےکا غم کہا جاتا ہے۔
اس سروس کا زیادہ تر استعمال آئی سی یو میں ہوتا ہے، جبکہ سائیکاٹری، نیورولوجی اور کارڈیالوجی سمیت مختلف شعبوں میں بھی اس سروس کا استعمال بہترین ہے۔
میں ہر کھانا پکاتی ہوں۔ مگر ہر بار وہی کھانا مختلف ذائقہ اور خوشبو لیے ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ناپ تول کر نہیں پکاتی۔
اس پراجیکٹ کے تحت بے روز گار ہونے والے لوگوں کو کام فراہم کیا جا رہا ہے اور معاوضے کے طور پر انہیں ہر ماہ فی خاندان ساڑھے آٹھ ہزار روپے ادا کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ فی الحال سفارت خانے کی سفارشات کی روشنی میں امریکہ کے لیے 12 پروازوں کی اجازت لی گئی ہے۔ اگر واپس جانے والے پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہوئی تو مزید پروازوں کی اجازت کے لیے امریکہ سے درخواست کی جائے گی۔
چکوا ل کا یہ سینٹر اور ایسے ہی بہت سے سینٹر امریکہ کے ایک فلاحی ادارے ہیلپنگ ہینڈ یو ایس اے کی مالی معاونت سے پاکستان کے بہت سے شہروں اور قصبوں میں چل رہے ہیں جہاں خواتین کو مختلف ہنر سکھا کر اپنا روزگار خود کمانے کے قابل بنایا جاتا ہے۔
میری لینڈ میں موجود لاہور کے طابعلم نوفل کامران نے کہا کہ وہ ابھی پاکستان واپس نہیں جانا چاہتے کیوں کہ ایسے وقت میں سفر سے وہ کرونا وائرس کا نشانہ بن سکتے ہیں اور پاکستان میں والدین کو اس میں مبتلا کردیں گے۔ اور اگر یہاں کرونا کا نشانہ بنے تو ان کا علاج پاکستان کی نسبت زیادہ بہتر طریقےسے ہو سکتا ہے۔
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان خصوصی پروازوں کے ذریعے زیادہ تر برطانیہ، کینیڈا اور یورپی ملکوں میں پھنسے پاکستانیوں کو واپس لایا جائے گا۔
گزشتہ دو ہفتوں میں پہلے دو ہزار اور پھر 6700 پاکستانیوں کو ملک واپس لایا گیا ہے اور پیر سے شروع ہونے والے ہفتے میں پی آئی اے 7 سے ساڑھے 7 ہزار پاکستانیوں کو واپس لانے کا اپنا ہدف پورا کرنے کے لیے پروازیں چلائے گا۔
ڈاکٹر محمد زمان خان کا کہنا ہے کہ اس کرونا وائرس کی مؤثر دوا کی تحقیق میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور وہ آٹھ ایسی دوائیں ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو اس وائرس کے خلاف کام کر سکتی ہیں۔ تاہم ابھی اس سلسلے میں کچھ تجربات ابھی باقی ہیں۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر سرجن ڈاکٹر سعید قریشی نے بتایا کہ یونیورسٹی کے بائیو ٹیکنالوجسٹس کرونا وائرس پر کنٹرول کے سلسلے میں پلازما تھیراپی پر کام کر رہے ہیں اور یہ ریسرچ کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
ادارے کے ترجمان افضل چمڈیا نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان میں یہ ادارہ پہلے ہی روزانہ ایک لاکھ لوگوں کو پکا ہوا کھانا مفت فراہم کر رہا تھا اور کرونا کی وبا کے پھیلاؤ کے بعد ادارے نے اپنی فلاحی سرگرمیوں کا دائرہ مزید وسیع کر دیا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ کچھ صنعتوں، مثلاً خوراک، آٹا، فارمیسی، صابن، ہینڈ واش، سینی ٹائزر جیسی انڈسٹریز کو ضروری قرار دے اور ملازمین کی کم سے کم تعداد کے ساتھ اور کرونا وائرس سے بچاؤ کے حفاظتی اقدامات کے ساتھ اپنی فیکٹریوں میں کام جاری رکھنے کی اجازت دے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا گروپ مختلف مقامات پر کرونا کے علاج میں مصروف ڈاکٹروں کو منسلک کرنے کے لیے میڈیکل ڈاکٹروں کی نگرانی میں اینڈروئیڈ ایپ تیار کر چکا ہے جس کے ذریعے تمام ڈاکٹر ایک دوسرے کے ساتھ معلومات اور اپنے تجربات شیئر کر سکیں گے۔ یہ ایپ ایک دو روز میں فعال ہو جائے گا۔
سلی کان ویلی اور پاکستان میں قائم آرٹی فیشل انٹیلی جینس کی ایک ٹیکنالوجی کمپنی ’پولٹا‘ نے بھی فوری طور پر ایک وینٹی لیٹر تیار کیا ہے، جس کا ماڈل پاکستان انجنیرنگ کونسل اور پاکستان ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کو پیش کیا جا چکا ہے۔
پروین سعید نےبتایا کہ وہ جن بستیوں میں جارہی ہیں وہاں لوگ بھوکے بھی ہیں، بیمار بھی ہیں اور روزگار بھی نہیں ہے اور وہاں کوئی دکانیں بھی نہیں ہیں۔ وہ کرونا وائرس سے نہیں ڈر رہے بلکہ وہ بھوک سےڈر رہے ہیں۔
ڈاکٹر سعید نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں بہتر یہ ہی ہوگا کہ اگر کسی شخص میں کرونا کی تشخیص ہو چکی ہو وہ یہ دوا استعمال نہ کرے، بلکہ اس سلسلے کی دوسری ادویات کو استعمال کیا جائے مگر وہ بھی ڈاکٹر کے مشورے سے۔
مزید لوڈ کریں