پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے غیرملکی فنڈنگ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ انہوں نے بطور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) درخواست میں ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سابق نائب صدر اور منحرف رہنما اکبر ایس بابر نے غیر ملکی اور ممنوع فنڈنگ سے متعلق قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے خلاف 2014 سے درخواست دائر کر رکھی ہے۔
پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست گزار کی حیثیت کو چیلنج کیا تھا۔ تاہم ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے 18 جولائی 2018 کو درخواست مسترد کردی جس کے خلاف پی ٹی آئی نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ سال چار دسمبر کو انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کو اکبر ایس بابر کی پی ٹی آئی کی رُکنیت سے متعلق فیصلہ کرنے کی ہدایت کی۔
وزیر اعظم کی درخواست کیا ہے؟
وزیر اعظم کی جانب سے دائر درخواست میں حنیف عباسی بنام عمران خان کیس کا حوالہ دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس کیس میں قواعد طے کر دیے تھے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ قانون کی نظر میں الیکشن کمیشن کوئی عدالت یا ٹریبونل نہیں۔ اکبر ایس بابر کا 2011 سے تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔ انہیں شو کاز نوٹس جاری کیے گئے۔ انہیں پی ٹی آئی سے نکالا گیا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اکبر بابر نے پی ٹی آئی چھوڑنے کی ای میل کی جو ریکارڈ پر موجود ہے، الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ میں اکبر ایس بابر کی درخواستیں بدنیتی پر مبنی ہیں۔
عمران خان کی جانب سے درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کی فنڈنگ کے کیس میں متاثرہ فریق نہیں۔ اس لیے الیکشن کمیشن کو کیس سننے کا اختیار نہیں۔ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس انکوائری کمیٹی کے پاس زیرِ التوا ہے۔ لہذٰا ہائی کورٹ آرٹیکل 199 کا اختیار استعمال کرتے ہوئے فیصلہ نہیں دے سکتی۔
عمران خان نے درخواست میں یہ بھی کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کا 18 جولائی 2018 کا چیمبر آرڈر بھی قانون کی نظر میں درست نہیں۔ انہوں نے ہائی کورٹ کے چار دسمبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
فارن فنڈنگ کیس ہے کیا؟
پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے نومبر 2014 میں پاکستان تحریک انصاف کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ لینے کے معاملے پر درخواست الیکشن کمیشن میں دائر کی۔
درخواست گزار کا الزام تھا کہ تحریک انصاف کو بیرون ممالک سے بھاری رقوم فنڈنگ کی مد میں حاصل ہوئی۔ لیکن الیکشن کمیشن کو جو ریکارڈ فراہم کیا گیا وہ اُس رقم سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لہذٰا فنڈز میں خرد برد کی گئی۔
الیکشن کمیشن نے اگست 2017 میں غیر ملکی فنڈنگ کیس کی سماعت روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریکارڈ جمع کرانے کے لیے سات ستمبر تک کی مہلت دی تھی۔
بعد ازاں، الیکشن کمیشن نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اس حوالے سے حکم دیا۔ جس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے مختلف کمرشل بینکوں میں موجود کل 26 اکاؤنٹس میں سے آٹھ کو ظاہر کیا۔ اور ان کی تفصیل الیکشن کمیشن میں عمران خان کے دستخطوں سے جمع کرائی۔
لیکن 18 اکاؤنٹس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ بے نامی اکاؤنٹس تھے جن میں بیرون ملک سے آنے والی فنڈنگ جمع کی جاتی رہی۔ لیکن یہ فنڈنگ کہاں خرچ ہوئی اس بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔ پاکستان کی حزب اختلاف انہی بے نامی اکاؤنٹس کی بنیاد پر تحریک انصاف کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اس کیس میں مختلف تاخیری حربے استعمال کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے۔ اس کیس کی منگل کو ہونے والی سماعت 18 ماہ کے عرصہ کے بعد ہوئی ہے۔ آخری سماعت مارچ 2018 میں ہوئی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف فارن فنڈنگ کے حوالے سے اکبر ایس بابر کی طرف سے عائد کردہ تمام الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ سیاسی مخالفین کے کہنے پر پارٹی کو بدنام کرنے کے لیے یہ کیس بنایا گیا ہے۔
درخواست گزار اکبر ایس بابر نے چند روز قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "امریکہ، ڈنمارک، آسٹریلیا سمیت مشرقِ وسطیٰ میں تحریک انصاف نے فنڈنگ حاصل کی۔ پانچ سالوں میں تحریک انصاف سکروٹنی اور تحقیقات سے بھاگتی رہی۔ تحریک انصاف کا بانی رکن ہوتے ہوئے کچھ چیزیں میرے علم میں آئیں۔"