پاکستان میں وفاقی وزارتِ داخلہ نے سندھ کی تین تنظیموں کو کالعدم قرار دے کر اِن کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔
حکام کے مطابق ان تنظیموں اور ان کے رہنماؤں کے دہشت گردی اور ریاست مخالف سرگرمیوں سمیت سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔ حکام کے بقول اس بات کے بھی شواہد ملے ہیں کہ یہ تنظیمیں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو نقصان پہنچانے کے لیے بیرونی دشمن کے آلۂ کار کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔
کالعدم قرار دی گئی تنظیموں میں سندھ کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والی سندھو دیش لبریشن آرمی اور سندھو دیش انقلابی آرمی کے ساتھ ساتھ قوم پرست جماعت جئے سندھ قومی محاذ (آریسر گروپ) بھی شامل ہے۔
جسقم آریسر گروپ کون چلا رہا ہے؟
ضلع تھر پارکر سے تعلق رکھنے والے عبد الواحد آریسر نے 2006 میں جئے سندھ قومی محاذ کے مرکزی دھارے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے جئے سندھ قومی محاذ (آریسر گروپ) قائم کیا تھا۔
جئے سندھ قومی محاذ کے ایک اور رہنما بشیر قریشی سے اختلافات کے باعث وہ جسقم کے مرکزی دھارے سے الگ ہوئے تھے۔
عبد الواحد آریسر اس سے قبل قوم پرست جماعتوں کے اسی متحدہ پلیٹ فارم یعنی جئے سندھ قومی محاذ کے مرکزی چیئرمین بھی رہ چکے تھے۔ عبدالواحد آریسر سندھ کے ایک اور اہم قوم پرست رہنما جی ایم سید اور ہندوستان کی تحریک آزادی کی اہم شخصیت مولانا ابوالکلام آزاد کے خیالات سے کافی متاثر تھے۔
قوم پرست رہنماؤں میں عبد الواحد آریسر کی پہچان ایک دانشور شخص کے ساتھ سندھ میں رہنے والے اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان اتحاد کے داعی کے طور پر تھی۔ اسی وجہ سے وہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کے بھی قریب رہے۔ جس پر انہیں قوم پرست جماعتوں اور ان کے قائدین کی جانب سے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔
عبدالواحد آریسر 2015 میں اپنی وفات سے قبل ہی سیاسی طورپر غیر فعال ہو چکے تھے۔ جس کے بعد اس گروپ کی ذمہ ساری اسلم خیرپوری کے پاس آئی۔
مبصرین کے مطابق اسلم خیر پوری اب بھی سیاسی طور پر غیر معروف ہیں اور بے اثر رہے ہیں۔ تاہم اس تنظیم اور اس کے خیالات سے موافقت رکھنے والوں کی بڑی تعداد نے حال ہی میں سندھ میں لاپتا افراد کے معاملے کو زور و شور سے اٹھایا تھا۔
یہ تنظیم بنیادی طور پر جی ایم سید کے عدم تشدد کے فلسفے کے تحت تشدد کے بجائے سیاسی طور پر اپنے مقاصد کے حصول کی حامی ہے۔
سندھ لبریشن آرمی اور سندھ انقلابی آرمی کون چلا رہا ہے؟
سندھ میں گزشتہ کئی سال سے دہشت گردی کے واقعات میں سندھ لبریشن آرمی کا نام سامنے آتا رہا ہے۔ اس تنظیم کے خلاف ریلوے ٹریکس کو تباہ کرنا، بجلی کی ہائی ٹرانسمیشن لائنز اور مواصلات کے نظام میں خلل ڈالنے سمیت کراچی میں اہم قونصل خانوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کے الزامات شامل ہیں۔
سیکیورٹی حکام کے مطابق اس تنظیم کی قیادت شفیع محمد برفت کے پاس ہے جو اس وقت اطلاعات کے مطابق جرمنی میں مقیم ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر بھی کافی فعال ہیں۔
اس سے قبل شفیع محمد برفت جئے سندھ متحدہ محاذ (جسمم) کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں جسے 2013 میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔
شفیع محمد برفت اور ان کی تنظیم سندھ کو الگ ملک بنانے کے لیے مسلح جدوجہد کی حامی ہے۔
سندھو دیش انقلابی آرمی کے سرکردہ افراد کون؟
اسی طرح سندھو دیش انقلابی آرمی (یا ریولوشنری آرمی) کے پیچھے ضلع لاڑکانہ کے علاقے ڈوکری سے تعلق رکھنے والے اصغر شاہ کا نام آتا ہے۔
اصغر شاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سندھ یا بلوچستان ہی میں روپوش ہیں۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق اصغر شاہ اغوا برائے تاوان، بینک ڈکیتی جیسی وارداتوں میں پولیس کو مطلوب ہیں۔
یہ گروپ بھی صوبے کو طاقت کے زور پر الگ وطن بنانے پر یقین رکھتا ہے۔
'سندھ میں قوم پرستی کی تحریک کمزور ہوئی ہے'
سندھ کے معروف صحافی، دانشور اور لکھاری سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ سندھ میں قوم پرستی کی تحریک کی ایک تاریخ رہی ہے لیکن 2010 میں پاکستان میں 18ویں آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد ان کے خیال میں قوم پرستوں کی سیاست کا اثر کافی حد تک زائل ہوا ہے۔
سہیل سانگی کے مطابق یہی کچھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی دیکھا گیا ہے۔
یاد رہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے مرکزی حکومت کے کئی اختیارات صوبوں کے سپرد کیے گئے تھے جس سے صوبوں کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی اور انتظامی اختیارات میں بھی نمایاں اضافہ کیا گیا تھا۔
سہیل سانگی کا کہنا ہے کہ قوم پرست رہنما اس وقت بکھرے ہوئے ہیں۔ ان میں اختلافات وقت کے ساتھ بڑھے ہیں جب کہ وہ عوام میں زیادہ پذیرائی حاصل کرنے میں بھی ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
ان کے خیال میں ایسے اشارے مل رہے تھے کہ ایسے گروہوں پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
وہ اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ ان گروپس سے بلوچستان اور سندھ کے بعض علاقوں سے گزرنے والی چین پاکستان اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں کو کوئی واقعی خطرہ ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عوامی پذیرائی میں کمی کے باعث یہ گروہ فی الحال بالکل کمزور دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری جانب بعض مبصرین کہتے ہیں کہ سندھ کی سیاست میں قوم پرستوں کا عمل دخل آج بھی موجود ہے۔ مگر اب اس کا فائدہ قوم پرست جماعتوں کے بجائے صوبے میں برسرِ اقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ہی کو زیادہ پہنچتا نظر آتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سندھ کا ایک بڑا طبقہ جو کہ پڑھا لکھا بھی ہے، قوم پرست خیالات اور نظریات کا اب بھی حامی ہے اور قوم پرسوں کی عوامی حمایت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ علیحدگی پسند نظریات کے پروان چڑھنے میں صوبے میں غربت، کرپشن، بے روزگاری اور خراب طرزِ حکمرانی کو اہم سمجھا جاتا ہے جب کہ صوبے میں برسرِ اقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں موجود جماعتوں پر الزام عائد کرکے خود کو بری الذمہ قرار دیتی آئی ہے۔ اسی وجہ سے ایک بڑا طبقے قوم پرست جماعتوں کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔