صوبہ پنجاب کے محکمۂ لائیو اسٹاک نے اونٹوں کی مصنوعی افزائش نسل کے ذریعے اونٹ کے بچے کی پیدائش کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
محکمے کے مطابق مصنوعی طریقے سے مادہ اونٹ کی پیدائش، صوبہ پنجاب کے ضلع بھکر میں اونٹوں کی افزئش نسل کے لیے قائم ادارہ 'کیمل بریڈنگ اینڈ ریسرچ اسٹیشن' رکھ مکھنی میں ہوئی ہے۔
محکمۂ لائیو اسٹاک کے مطابق پاکستان میں مصنوعی طریقے سے اونٹ کی پیدائش کا یہ پہلا کامیاب تجربہ ہے۔ محکمہ اِس سے قبل گائے اور بھینسوں کی مصنوعی طریقے سے افزائش کر چکا ہے۔
کیمل بریڈنگ اینڈ ریسرچ اسٹیشن میں تعینات اسسٹنٹ ریسرچ افسر ڈاکٹر محمد شاہد نبیل بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اونٹ کی مصنوعی افزائشِ نسل آج تک نہیں ہوئی۔ نہ ہی اس کے بارے میں کسی نے سوچا تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں گائے اور بھینس میں مصنوعی طریقے سے سیمن یعنی مادہ منویہ موجود ہے جس سے لوگوں کو فائدہ بھی ہو رہا ہے۔
پیدائش کا مرحلہ
اسسٹنٹ ریسرچ افسر ڈاکٹر محمد شاہد نبیل بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال مارچ کے اندر نر اونٹ کا جرثومہ (سیمن) حاصل کیا گیا تھا اور اس جرثوے کو حاصل کرنا بہت مشکل مرحلہ تھا کیوں کہ یہ ایک بڑا جانور ہے۔ ان کے بقول ان کے پاس جرثومے کو محفوظ رکھنے کے لیے کوئی سینٹر یا سہولت موجود نہیں تھی۔ جو تازہ جرثومہ لیا اُسے فوری طور پر اونٹنی کے اندر رکھ دیا۔
ڈاکٹر محمد شاہد نے بتایا کہ جرثومے کو اڑھائی ماہ بعد ‘الٹرا فونو گرافک’ مشینوں کے ذریعے اونٹنی کے اندر چیک کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اونٹنی حاملہ تھی جس کے بعد اونٹنی کی دن رات دیکھ بھال شروع کی گئی اور اُسے ایک خاص ماحول میں رکھا گیا۔
ڈاکٹر محمد شاہد کے بقول 13 ماہ بعد رواں ہفتے سات اپریل کو اونٹنی نے بچے کو جنم دیا اُن کے مطابق بچہ پیدا کرنے کا عمل نارمل (نارمل ڈلیوری) رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی آنکھوں کے سامنے بچہ پیدا ہوا اور وہ خود موقع پر موجود تھے۔
حکومتِ پنجاب کے محکمہ لائیو اسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ کے شعبہ بریڈ امپاورمنٹ میں تعینات ڈائریکٹر ڈاکٹر آصف سلیمان ساہی بتاتے ہیں کہ جانوروں کی افزائشِ نسل دو طریقوں سے ہوتی ہے۔ ایک طریقے قدرتی (قدرتی ملاپ) بھی ہے جس میں جو نر جانور دستیاب ہوتا ہے اُسی کی نسل آگے بڑھتی ہے۔
اس عمل کا فائدہ کیا ہو گا؟
کیمل بریڈنگ اینڈ ریسرچ اسٹیشن کے اسسٹنٹ ریسرچ افسر ڈاکٹر محمد شاہد نبیل بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اونٹوں کی افزائش مختلف علاقوں میں ہوتی ہے اور یہ ملک کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جہاں پر ہر کسی کے پاس نر جانور (اونٹ) نہیں ہوتے جس کے باعث لوگ دور دراز کے علاقوں میں جا کر اونٹوں کی قدرتی طریقے سے افزائشِ نسل کراتے ہیں۔ اُن کے بقول جس کے پاس اونٹ ہوتا ہے وہ افزائشِ نسل کے زیادہ پیسے وصول کرتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض اوقات پہلی، دوسری یا تیسری مرتبہ اونٹنی میں حمل نہیں ٹھیرتا جس سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے بقول مصنوعی طریقے سے اونٹوں کی افزائشِ نسل کا فائدہ یہ ہو گا کہ جو اچھی اور خاص خصوصیات کے حامل اونٹوں کی قسم ہوتی ہے اُن کی نسل کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اچھی نسل والے اُونٹوں کے جرثومے محفوظ کر کے لوگوں کی دہلیز پر فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد شاہد کے مطابق اِس طریقے سے اچھی نسل کے نر اور مادہ اونٹ پیدا کیے جا سکتے ہیں اور اُن کی تعداد کو بہتر انداز میں آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
نئے پیدا ہونے والی اونٹنی کے بارے میں اُنہوں نے مزید بتایا کہ یہ مڑیچہ نسل کی اونٹنی ہے۔
ایک نر کے جرثومے سے کتنے بچے پیدا کیے جا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر آصف سلیمان ساہی کا کہنا تھا کہ مصنوعی افزائشِ نسل کے ذریعے ایک وقت میں ایک نر جانور سے زیادہ بچے پیدا کیے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اِس طریقہ کار میں ایک نر جانور کا تولیدی مادہ پراسس کر کے مادہ جانور کو لگاتے ہیں تو اُس سے بیک وقت بہت سے بچے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
اُنہوں نے مزید بتایا کہ ایک نر اونٹ کا جرثومے سے 60 سے 70 بچے پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان میں یہ پہلا کامیاب تجربہ ہوا ہے۔
ان کے بقول یہ تازہ جرثومے سے اونٹنی کا بچہ پیدا ہوا ہے۔ بعد میں اِس میں بھی پراسس والا جرثومہ آ جائے گا۔ آہستہ آہستہ اِس کو مزید بڑھایا جائے گا۔ اِس میں اصل چیز یہ ہے کہ کس نسل اور قسم کا نر جانور کا جرثومہ استعمال ہو رہا ہے۔ اگر اچھی نسل کے اونٹوں کا جرثومہ مل جاتا ہے تو وہی مادہ اونٹنی کے اندر رکھا جاتا ہے۔
ریگستانی جہاز
ڈاکٹر محمد شاہد نے بتایا کہ ریگستانی علاقوں میں جس طرح اونٹ رہتا ہے اُس طریقے سے نہ گائے رہ سکتی ہے اور نہ ہی بھینس۔
اُنہوں نے کہا کہ ریگستانی علاقوں میں چوں کہ موسمِ گرما طویل اور شدید ہوتا ہے جہاں پانی کی بھی قلت ہوتی ہے۔ البتہ اُن علاقوں میں اونٹ آسانی سے کئی کئی دن بغیر پانی کے رہ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ کم خوراک کے ساتھ بھی گزارہ کر لیتا ہے۔
اونٹنی کے دودھ کے فوائد
کیمل بریڈنگ اینڈ ریسرچ اسٹیشن کے اسسٹنٹ ریسرچ افسر ڈاکٹر محمد شاہد نبیل کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اونٹنی کا دودھ انسانی جسم کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اِس میں وٹامن ڈی کی مقدار زیادہ پائی جاتی ہے۔
اُنہوں نے مزید بتایا کہ اِس کا دودھ آنکھوں کی صحت، یرقان کی بیماری اور جوڑوں کے درد میں مفید ہے۔
اُن کے بقول اونٹنی کا دودھ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا افراد کے لیے فائدہ مند ہے۔ خاص طور پر ایسے افراد جو انسولین لگاتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد شاہد کے مطابق اِس کے دودھ میں قدرتی طور پر 52 ملی گرام سے 56 ملی گرام تک انسولین کے یونٹ موجود ہوتے ہیں جو کسی بھی دوسرے دودھ دینے والے جانور کے دودھ میں شامل نہیں ہوتے۔
کیمل بریڈنگ اینڈ ریسرچ اسٹیشن کے اسسٹنٹ ریسرچ افسر ڈاکٹر محمد شاہد نبیل بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اونٹ بڑی تعداد میں نہیں پائے جاتے۔ دستیاب اونٹ بھی دور دراز کے علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
اُنہوں کہا کہ محکمہ لائیو اسٹاک پنجاب نے چند سال قبل اونٹنی کے دودھ کی کمرشل بنیادوں پر فروخت شروع کی تھی جسے لوگوں نے پسند کیا جب کہ لوگ اِس کے گوشت کو بھی پسند کرتے ہیں۔
ڈاکٹر آصف سلیمان ساہی نے بتایا کہ عیدالاضحٰی کے موقع پر اونٹ کے گوشت کی طلب بڑھ جاتی ہے اور لوگ اِسے شوق سے کھاتے ہیں۔
واضح رہے کہ مصنوعی طریقے سے پیدا ہونے والے اونٹنی کے بچے کو اُس کی ماں کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ محکمہ اِس بچے کا نام رکھنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔