پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان تین میچوں پر مشتمل ون ڈے سیریز کا باقاعدہ آغاز جمعرات سے ہو گا۔ یہ سیریز دونوں ٹیموں کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔
پاکستان کے لیے ون ڈے سیریز اس لیے اہم ہے کہ کیوں کہ اسے انگلینڈ کو اس کی سرزمین پر 47 برس بعد ون ڈے سیریز ہرانے کا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔ انگلینڈ کے لیے اس سیریز کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس کے زیادہ تر کھلاڑی وہ ہیں جنہیں پہلی مرتبہ قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
پاکستان کے مقابلے میں انگلش اسکواڈ نئے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ ایک طرف بابر اعظم کی قیادت میں وہ ٹیم ہے جس نے حال ہی میں جنوبی افریقہ کو ون ڈے سیریز میں شکست دی تھی۔ دوسری جانب بین اسٹوکس ہیں جو ان کھلاڑیوں کی قیادت کریں گے جن کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتا۔
انگلینڈ کی ٹیسٹ ٹیم کا مستقل حصہ رہنے والے فاسٹ بالر اسٹورٹ براڈ نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے پاکستان ٹیم کے 'تجزیہ کاروں' کے لیے ایک چیلنج قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ سری لنکا کے حالیہ دورے کے اختتام پر جب انگلش اسکواڈ کے تین کھلاڑیوں اور سات معاون اسٹاف ارکان کے کرونا ٹیسٹ کیے گئے تو ون ڈے ٹیم کے کپتان این مورگن سمیت تین کھلاڑیوں کے ٹیسٹ مثبت آئے۔
انگلش کھلاڑیوں کے کرونا ٹیسٹ ایسے موقع پر مثبت آئے جب پاکستان کے خلاف سیریز شروع ہونے میں چند روز ہی باقی تھے۔ کھلاڑیوں اور عملے کے کرونا ٹیسٹ مثبت آنے پر انگلش کرکٹ بورڈ نے ان تمام کھلاڑیوں کو مدعو کیا جو ٹیم میں کھیلنے کے اہل تو تھے لیکن اس کا حصہ نہیں تھے۔
پاکستان کے خلاف انگلش اسکواڈ میں چند کھلاڑی ایسے ہیں جو انگلینڈ کی ماضی میں نمائندگی کر چکے ہیں لیکن زیادہ تر کھلاڑیوں کے پاس انگلینڈ میں کھیلنے کا تجربہ تو ہے لیکن انگلینڈ کی طرف سے کھیلنے کا نہیں۔
کیا بین اسٹوکس امتحان میں کامیاب ہو سکیں گے؟
سن 1974 میں پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیمیں پہلی مرتبہ ون ڈے میچ میں ایک دوسرے کے مدمقابل آئی تھیں۔ اس وقت دونوں ٹیموں کا اس فارمیٹ کا تجربہ بھی کم تھا اور اسٹار کھلاڑیوں کی دونوں کے پاس بھر مار تھی۔ لیکن پاکستان نے یہ دو میچ پر مشتمل ون ڈے سیریز جیت کر ون ڈے فارمیٹ کا آغاز کامیابی سے کیا تھا۔
سنتالیس برس بعد بین اسٹوکس کی قیادت میں انگلش کرکٹ ٹیم ایسے کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہے جن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی انگلینڈ کے لیے ون ڈے انٹرنیشنل کھیلیں گے۔
سینئیر اسپورٹس جرنلسٹ شاہد ہاشمی کہتے ہیں انگلش ٹیم میں اتنی زیادہ تبدیلیوں سے جہاں پاکستان ٹیم کو فائدہ ہوسکتا ہے، وہیں نقصان کے بھی امکانات موجود ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان یہ سیریز جیت کر ون ڈے سپر لیگ میں اپنی پوزیشن مستحکم کرسکتا ہے۔ اس سیریز کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیوں کہ یہ 2023 میں ہونے والی ون ڈے سپر لیگ کا حصہ ہے اور ہر میچ میں کامیاب ٹیم کو 10 پوائنٹس ملیں گے۔
ان کے بقول پاکستان انگلینڈ کے خلاف سیریز کو کلین سوئپ کر کے 30 قیمتی پوائنٹس حاصل کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان اب تک 11 ون ڈے سیریز انگلینڈ میں کھیلی گئیں جس میں سے نو میزبان انگلینڈ نے جیتیں، ایک پاکستان نے اور ایک ڈرا ہوئی۔ انگلش ٹیم کے کھلاڑیوں کے باہر ہونے کی حالیہ پیش رفت سے پاکستان کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
سابق پاکستانی آل راؤنڈر یاسر عرفات کہتے ہیں انگلش ٹیم کے مستند کھلاڑیوں کی غیر موجودگی سے پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ٹیم میں بھی کئی نوجوان کھلاڑی شامل ہیں جنہیں انگلینڈ میں انگلینڈ کے خلاف کھیلنے کا اتنا تجربہ نہیں۔ اس سیریز کے ذریعے انہیں نہ صرف موقع ملے گا بلکہ ان کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔
یاسر عرفات نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ انگلش اسکواڈ میں شامل بیشتر کھلاڑیوں کے خلاف نہ پاکستان ٹیم نے کبھی کھیلا ہے اور نہ ہی کبھی انہیں دیکھا ہے۔ اس صورتِ حال میں کہیں پاکستان ٹیم مشکلات کا شکار نہ ہوجائے۔
شاہد ہاشمی کے بقول، انگلش ٹیم میں شامل تمام کھلاڑی مقامی کنڈیشنز سے آگاہ ہیں اور کاؤنٹی کرکٹ اور ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ میں کھیل رہے ہیں۔ پاکستان کو ان کھلاڑیوں کے بارے میں زیادہ نہیں معلوم اس لیے ان کے خلاف محتاط انداز سے کھیلنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ انگلش اسکواڈ میں شامل برائڈن کارس 90 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بالنگ کرتے ہیں، ڈیوڈ پین نے حال ہی میں بڑی وکٹیں لی ہیں جب کہ میٹ پارکنسن ایک اچھے لیگ اسپنر ہیں۔ ڈینی برگز اور ثاقب محمود کا شمار بھی اچھے بالروں میں ہوتا ہے۔
ان کے بقول انگلش بیٹںگ لائن میں بین ڈکٹ اور لوئس گریگوری اچھے کھلاڑی ہیں جب کہ کپتان اور آل راؤنڈر بین اسٹوکس بھی بیٹںگ لائن کے مضبوط ستون ہیں۔
یاسر عرفات کہتے ہیں کہ پاکستان کے سینئر کھلاڑیوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور صرف بابر اعظم پر انحصار کرنا دانش مندی نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ بابر اعظم کے علاوہ فخر زمان اور محمد رضوان کو کارکردگی دکھانا ہوگی جب کہ شاداب خان اور شاہین شاہ آفریدی کو بھی ذمہ داری لینا ہو گی۔
کون سے ریکارڈز سیریز کے دوران ٹوٹ سکتے ہیں؟
کرکٹ کے کھیل میں جہاں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، وہی ریکارڈز بھی بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ اس ون ڈے سیریز میں اگر پاکستانی کپتان بابر اعظم چل گئے، اور انہوں نے تین میچز میں 192 رنز اسکور کر لیے تو وہ سب سے کم ون ڈے انٹرنیشنلز میں چار ہزار رنز کا سنگ میل عبور کرنے والے بلے باز بن جائیں گے۔
اس وقت یہ ریکارڈ جنوبی افریقہ کے ہاشم آملہ کے پاس ہے جنہوں نے صرف 81 اننگز میں یہ سنگ میل عبور کیا تھا۔
بابر اعظم نے اب تک 78 میچوں میں 3808 رنز بنائے ہیں اور اس سیریز میں کامیابی انہیں ایک اور ریکارڈ کا مالک بنا دے گی۔
دوسری جانب انگلش کھلاڑی ڈینی برگز ہیں جنہوں نے آخری بار انگلینڈ کی نمائندگی 2012 میں کی تھی جب پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق قومی ٹیم کے کپتان تھے۔ پاکستان کی موجودہ ٹیم میں شاید ہی کوئی کھلاڑی ایسا ہے جو اُس وقت انٹرنیشنل کرکٹ کھیل رہا تھا۔
اگر ڈینی برگز نے اس سیریز میں ایک بھی میچ کھیل لیا تو وہ نو برس بعد انگلش ٹیم کی نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے۔
اس سے قبل اس فہرست میں وین لارکنز اور جو ڈینلی شامل ہیں جب کہ ٹیم میں واپسی کے لیے سب سے زیادہ انتظار کرنے کا ریکارڈ اب بھی شان اوڈل کے پاس ہیں جنہوں نے 1995 کے بعد انگلینڈ کی نمائندگی 2005 میں کی تھی۔
اگر پاکستان ٹیم نے یہ سیریز جیت لی تو 1974 کے بعد پہلی مرتبہ انگلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز جیتنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس دوران گرین شرٹس نے 2017 میں آئی سی سی چیمپٔنز ٹرافی اور 2009 میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی انگلینڈ میں جیتا تھا لیکن انگلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز جیتنے سے قاصر رہی۔