پاکستان کے شہر کراچی میں ڈکیتی مزاحمت کے حالیہ واقعے میں پولیس اہلکار کے ملوث ہونے کی تصدیق کے بعد محکمۂ پولیس کے تمام اہلکاروں کا ریکارڈ کمپوٹرائز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ایڈمنسٹریشن کراچی پولیس احمد نواز چیمہ کا کہنا ہے کہ کرمنل ریکارڈ کے حامل پولیس اہلکاروں کا ڈیٹا ریکارڈ پہلے سے ہی موجود ہے لیکن یہ اس وقت مینوئل ہے۔
ان کے بقول ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کرنے سے کرمنل ریکارڈ کے حامل پولیس اہلکاروں کی فوری طور پر نشاندہی آسان ہو جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ محکمۂ پولیس میں اگرچہ گاہے بگاہے اسکروٹنی کا عمل ہوتا رہتا ہے جسے دوبارہ سے شروع کیا جا رہا ہے۔
پولیس کی جانب سے یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب کراچی کے علاقے کشمیر کالونی میں 12 جنوری کو ماں اور بہن کو گھر کے باہر لوٹنے والے ملزم سے مزاحمت کرنے پر نوجوان کو قتل کر دیا گیا تھا۔ نوجوان شاہ رخ کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ چند روز قبل ہی اس کی شادی ہوئی تھی۔
کراچی پولیس کے اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ نے واقعے کی تحقیقات شروع کیں تو معلوم ہوا کہ اس واقعے میں ایک پولیس اہلکار فرزند علی اور اس کا دوست عمران ملوث ہے۔
ملزم کے بارے میں مزید تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پولیس کانسٹیبل فرزند علی اس سے قبل بھی جرائم کی کئی وارداتوں میں ملوث رہا ہے، جو کئی بار گرفتار ہونے کے باوجود بھی الزام ثابت نہ ہونے پر رہائی حاصل کر کے نوکری پر بحال ہوا ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ ملزم تک پہنچنے کے قریب تھی کہ فرزند علی نے گرفتاری کے خوف سے خودکشی کر لی۔
حالیہ واقعہ کراچی میں ایک بار پھر اسٹریٹ کرائمز کے بڑھتے ہوئے واقعات کی عکاسی کرتا ہے جب کہ اس کے بعد یہ بھی حقیقت سامنے آئی ہے کہ ایسے کئی واقعات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار خود بھی ملوث ہیں۔
'یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جس میں پولیس اہلکار ملوث ہوں'
سیٹیزن پولیس لیزن کمیٹی کے سابق چیئرمین جمیل یوسف کا کہنا ہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جس میں پولیس اہلکار اتنے سنگین جرم میں ملوث پائے گئے ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ اس وقت آتا ہے جب ایسی کالی بھیڑوں پر نگرانی رکھنے کا سسٹم افسران کی کوتاہیوں سے کمزور پڑ جائے اور اس پر عمل درآمد میں جان بوجھ کر روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔
جمیل یوسف کے بقول ایسے جرائم پیشہ افراد کی نشاندہی کوئی مشکل کام نہیں مگر جب کام نہ کرنا ہو تو اس کے لیے کئی بہانے تراشے جاتے ہیں۔
ان کے مطابق پولیس کے اندر اور پھر عدالتی نظام میں سقم کی وجہ سے جزا اور سزا کا تصور معدوم ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ایسے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔
جرائم کے ریکارڈ کے مطابق کراچی میں رواں برس کے پہلے 19 دنوں میں ڈکیتی مزاحمت پر اب تک پانچ افراد جان سے گئے جب کہ 30 سے زائد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
ڈی آئی جی احمد نواز چیمہ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں جدید کیمروں اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے بغیر پولیسنگ بہت ہی مشکل کام ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جوں جوں ہم ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ کریں گے چوری، ڈکیتی اور اس طرح کے دیگر جرائم پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
احمد نواز چیمہ کے مطابق پولیس نے اس حوالے سے زیادہ بہتر حکمت عملی مرتب کی ہے جس کے مثبت نتائج جلد سامنے آنے لگیں گے۔
دوسری جانب جمیل یوسف اس معاملے میں قصور وار صوبائی حکومت کو قرار دیتے نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں جرائم کی سرکوبی کے لیے کیمرے لگانے کے لیے پانچ بار منظوری ہو چکی ہے۔ البتہ کیمرے لگائے بھی گئے مگر ان میں سے بیشتر کی مینٹیننس نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ جو پیسہ لگایا گیا سب ضائع ہو گیا اور اب دوبارہ سے اس کی ٹینڈرنگ شروع کی جا رہی یے۔
جمیل یوسف کا کہنا ہے کہ یہ کرپشن کے راستے ہیں جس میں شہریوں کی جان و مال سے متعلق کام کو بھی لٹکایا جاتا یے۔
انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے محکمۂ داخلہ سمیت پلاننگ اور خزانے کے محکمے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔
ان کے بقول وزیرِ اعلیٰ کی اس قدر مصروفیت میں انہیں صوبے میں امن و امان کے مسائل کو سمجھنے اور اس پر حکمتِ عملی بنانے میں وقت کیسے ملتا ہو گا؟
دوسری جانب کراچی میں سیف سٹی منصوبے سے متعلق صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ اس پر جلد کام شروع کیا جائے گا۔
سیف سٹی منصوبے کے تحت کراچی بھر میں 27 ہزار اعلیٰ معیار کے کیمرے نصب کیے جانے ہیں اور اس مقصد کے لیے رواں برس بجٹ میں رقم بھی مختص کی گئی ہے۔
اس منصوبے کی لاگت تقریباً 38 ارب روپے بنتی ہے اور اس حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ نے نیشنل ریڈیو اینڈ ٹرانسمیشن کارپوریشن سے بات کر کے لاگت کم کرنے کی ہدایت کی تھی۔