کراچی کی ایک عدالت نے سندھ کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کو نوجوان کے قتل کے الزام میں تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
جام اویس گہرام سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے میرپور ساکرو سے رکنِ صوبائی اسمبلی ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سندھ کے ضلع ٹھٹھہ میں عرب باشندوں کو مبینہ طور پر شکار سے روکنے والے ایک نوجوان پر تشدد کر کے اسے قتل کیا۔
جام اویس نے جمعرات کو رات گئے میمن گوٹھ تھانے میں پیش ہو کر خود گرفتاری دی تھی۔ جمعے کو رکنِ سندھ اسمبلی سمیت تین ملزمان کو پولیس نے جوڈیشل مجسٹریٹ ضلع ملیر کی عدالت میں پیش کیا اور عدالت سے تفتیش کے لیے ان کی حوالگی کی درخواست کی۔
پیشی کے وقت ملزمان کی جانب سے کوئی بھی وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ جس کے بعد عدالت نے پولیس کی درخواستِ حوالگی منظور کرتے ہوئے ملزمان کو تین روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
ملزمان کے خلاف ناظم جوکھیو کے قتل کے الزام میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج ہے جس میں مجموعی طور پر پانچ افراد نامزد ہیں۔ عدالت نے آٹھ نومبر کو ملزمان کو دوبارہ پیش کرنے اور پولیس کو کیس کی پیش رفت رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
دوسری جانب نوجوان کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے والی جوکھیو برادری نے ایک بار پھر جمعرات کو رات گئے قومی شاہراہ پر دھرنا دیا اور اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کی۔ بعد ازاں صوبائی وزیر سعید غنی کی یقین دہانی پر جوکھیو برادری نے اپنا دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
مقتول ناظم جوکھیو کے بھائی افضل جوکھیو نے واقعہ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ عرب شکاری تلور کا شکار کرنے کے لیے اکثر ان کے علاقے میں آتے ہیں جن کی میزبانی رکنِ قومی اسمبلی جام عبدالکریم اور ان کے بھائی رکنِ صوبائی اسمبلی جام اویس گہرام کرتے رہتے ہیں۔
افضل جوکھیو کے بقول ان کے مقتول بھائی نے گاؤں میں شکار کرنے پر عرب شکاریوں کو روکنے کی کوشش کی اور ان کی ویڈیو بنائی۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے پر ان کے بھائی کو دھمکیاں دی گئیں۔
افضل جوکھیو نے الزام عائد کیا کہ رکنِ صوبائی اسمبلی جام اویس نے فون پر خود بات کر کے انہیں بھی گالیاں دیں۔
افضل جوکھیو کے مطابق جام اویس کے پرسنل سیکرٹری نیاز سالار نے فون کر کے بلایا تو وہ اپنے بھائی کو ساتھ لے کر جام اویس کے گھر گئے تاکہ معاملے کو رفع دفع کیا جا سکے۔
ان کے بقول جب وہ وہاں پہنچے تو گارڈز نے رکنِ صوبائی اسمبلی کے حکم پر ان کے بھائی ناظم جوکھیو پر بدترین تشدد کیا اور انہیں کہا گیا کہ وہ گھر جائیں اور صبح اپنے گھر والوں کو لے کر آئیں۔
"دوسرے دن جب صبح کو جام ہاؤس گئے تو بتایا گیا کہ بھائی کا انتقال ہو گیا ہے۔ میرے بھائی کو جام ہاؤس میں تشدد کر کے قتل کیا گیا اور لاش بھی وہیں موجود تھی۔"
افضل جوکھیو نے الزام عائد کیا کہ اس واقعہ میں رکنِ قومی اسمبلی عبدالکریم بجار بھی ملوث ہیں اور انہیں بھی گرفتار کیا جائے۔
ادھر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے اور سوشل میڈیا پر اس واقعہ پر احتجاج اور مذمت کے بعد وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبائی وزرا کے ہمراہ جمعے کو مقتول ناظم جوکھیو کے ورثا سے ملاقات کی۔ وزیرِ اعلیٰ نے مقتول کے ورثا سے واقعہ کی مکمل تفصیلات بھی لیں۔
ترجمان وزیرِ اعلیٰ سندھ کے مطابق مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے پولیس کو ہدایت دے کر ورثا کی مرضی کے مطابق ایف آئی آر درج کرائی اور عزم ظاہر کیا کہ ورثا کو ہر صورت انصاف دلایا جائے گا۔
صوبائی وزیر سعید غنی نے بھی واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ناظم جوکھیو کا قتل افسوس ناک واقعہ ہے۔ متاثرہ خاندان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں لیکن کسی کے ذاتی فعل پر پارٹی یا حکومت کو موردِ الزام نہیں ٹھیرانا چاہیے۔
سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ مقتول کے لواحقین کو انصاف ملے گا اور اس ضمن میں کوئی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔