رسائی کے لنکس

ریٹائرڈ آرمی افسران فوجی قیادت کی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کیوں کر رہے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سابق فوجی افسران پر مشتمل تنظیم ویٹرنز آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملک میں فوری انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے جس پر بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے جب کہ بعض حلقے ان کے مؤقف کی حمایت کر رہے ہیں۔

ویٹرنز آف پاکستان نے پیر کو اسلام آباد پریس کلب کے باہر پریس کانفرنس کی تھی جس میں آرمی چیف جنرل جاوید باجوہ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ملک کی سیاسی صورتِ حال کا نوٹس لیں اور فوری انتخابات کرائیں۔

پیر کو وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ نے اسلام آباد میں ایک صحافی کے سوال میں کہا کہ ریٹائرڈ افسران خود کو فوجی افسران کا نمائندہ نہ کہیں، ریٹائرڈ فوجی افسران کا فورم سیاست کے لیے نہیں ہے۔

پاکستانی فوج کے سابق افسر اور وکیل کرنل انعام الرحیم ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ وہ افسران جو فوج کو سیاست میں مداخلت کے لیے کہہ رہے ہیں ان کے خلاف فوج کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات کے تحت کیس بن سکتا ہے۔

'نیوٹرل رہنے کی گنجائش نہیں' لیفٹننٹ جنرل(ر) آصف یاسین ملک

سابق فوجی افسران کی تنظیم کے رکن سابق کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک کہتے ہیں کہ اگر فوجی قیادت نے کہا ہے کہ وہ نیوٹرل ہیں اور ایسے میں ملک ڈوب رہا ہو تو وہ بھی اس کے ذمے دار ہوں گے۔ لہذٰا اس موقع پر نیوٹرل رہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل آصف یاسین کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے پاکستانی فوج میں کئی برس تک نوکری اس سبز ہلالی پرچم کو سربلند رکھنے کے لیے کی تھی اور جب ہمیں محسوس ہوا کہ ملک کو خطرہ ہے تو وہ آج قوم کے لیے باہر نکلے ہیں۔

اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ "آج ملکی معیشت ڈوب رہی ہے اور لوگ پریشان ہیں۔ لہذٰا ہم اس مقصد کے لیے باہر نکلے ہیں کہ ملک کو بچایا جائے ورنہ اس کے علاوہ ہمارا کوئی سیاسی مقصد نہیں ہے۔"

آصف یاسین ملک نے کہا کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے فوجی قیادت کے براہ راست کردار کی ضرورت نہیں، ان کا اثر روسوخ ہے اور وہ اسے استعمال کرکے ملک کو اس بھنور سے نکال سکتے ہیں۔

سابق فوجی افسران کی تنظیم نے پیر کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کی تھی۔
سابق فوجی افسران کی تنظیم نے پیر کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کی تھی۔

پریس کانفرنس کے دوران تنظیم کے رُکن بریگیڈیئر (ر) میاں محمود نے دعویٰ کیا کہ جب حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو سابق فوجی افسران کے ایک گروپ نے جنرل باجوہ سے ملاقات کی تھی جس میں ملک کے بگڑتے ہوئے سیاسی حالات پر بات چیت کی گئی۔

ان کا دعویٰ تھا کہ یہ وفد ریٹائرڈ جنرل علی قلی خان کی قیادت میں ملا تھاجس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 90 روز میں انتخابات کروانے کا وعدہ کیا تھا۔

افواجِ پاکستان کی جانب سے تنظیم کے اس دعوے پر تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔تاہم پاکستان میں جاری سیاسی بحران کے دوران افواجِ پاکستان کی جانب سے کئی مواقع پر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ نیوٹرل ہیں، لہذٰا اُنہیں سیاسی معاملات میں نہ گھسیٹا جائے۔

'تنظیم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے' دفاعی تجزیہ کار طلعت مسعود

دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود کہتے ہیں کہ سیاسی مقاصد کے لیے سابق فوجی افسران کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اُنہوں نے الزام لگایا کہ ایک سیاسی جماعت معاشرے میں پائی جانے والی تقسیم سے فائدہ اُٹھا رہی ہے اور ان فوجی افسران کو استعمال کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فوجی افسران ریٹائر ہونے کے بعد بالکل سیاست میں آسکتے ہیں اور کسی بھی سیاسی جماعت کو جوائن کرسکتے ہیں، لیکن کسی فوجی افسر کی طرف سے آرمی چیف کوسیاست میں مداخلت کرنے کا نہیں کہا جا سکتا۔

سابق وزیرِ اعظم عمران خان بھی جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل رہنے کے اعلان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان بھی جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل رہنے کے اعلان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

'یہ فوج کو بغاوت پر اُکسانے کی کوشش ہے' کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ

پاکستان فوج کے سابق افسر اور وکیل کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل مدِت ملازمت میں توسیع پر جنرل باجوہ کو تنقیدی خط لکھنے پر ایک ریٹائرڈ میجر جنرل کے بیٹے کو پانچ برس قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہ خط افواجِ پاکستان کے دیگر سینئر جرنیلوں کو بھی لکھا گیا تھا، لہذٰا فوج میں بغاوت کی کوشش کے الزام میں اُنہیں سزا سنائی گئی۔

اُن کے بقول سابق فوجی افسران سب کے سامنے فوج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں جو آئین اور قانون کے مطابق فوج کا بغاوت پر اُکسانے کی کوشش ہے۔ اس پر بھی قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کرنل (ر) انعام کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سابق فوجی افسر کسی سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھتا ہے تو وہ باقاعدہ اس جماعت میں شامل ہوکر ان کے لیے کام کرے اور عملی سیاست میں حصہ لے۔ لیکن خود کو فوج کا نمائندہ ظاہر کرکے حاضر سروس افسران کو سیاست میں مداخلت کرنے اور الیکشن کروانے کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔

آرمی چیف 90 دن میں الیکشن کروانے کا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ میجر جنرل(ر) سعد

سابق میجرجنرل (ر) سعد خٹک کہتے ہیں کہ معاشرے کے ہر فرد کا چاہے وہ کسی ادارے سے منسلک رہا ہو، کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھنا جائز ہے۔ لیکن سابق فوجیوں کی تنظیم بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی رجسٹریشن ہو جس کی جنرل ہیڈ کوارٹرز ( جی ایچ کیو) کی طرف سے منظوری ہو ۔

اُن کے بقول اس تنظیم کے پاس ایسا کچھ نہیں ہے تو پھر یہ چند ہم خیال لوگوں کا اکٹھ ہے جس میں وہ اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔

90 دن میں انتخابات کروانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں اس بیان پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ اس بیان کی تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ ایک آرمی چیف کو کس طرح الیکشن کرانے کا کہا جا سکتا ہے۔ یہ ایک سیاسی عمل ہے جس کا فیصلہ سیاسی قائدین نے کرنا ہے۔

سابق فوجی افسران کو پریس کلب میں روک دیا گیا تھا؟

سابق فوجی افسران کی پریس کانفرنس کے دوران سوشل میڈیا پر یہ قیاس آرائیاں بھی ہو رہی تھیں کہ اُنہیں اسلام آباد پریس کلب میں نیوز کانفرنس سے روک دیا گیا ۔

نیشنل پریس کلب کے صدر انور رضا نےاس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ سابق افسران کو کلب میں نیوز کانفرنس سے نہیں روکا گیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "پریس کانفرنس سے کچھ دیر قبل ان لوگوں نے کچھ افراد زیادہ ہونے کا کہا جس پر ہم نے 30 افراد کی اجازت دی۔ لیکن سو سے زائد افراد آنے پر ہم نے اعتراض کیا کہ یہ سب لوگ اندر نہ آئیں اور نہ کسی قسم کی نعرے بازی کی اجازت ہو گی۔'

اُن کے بقول اس کے بعد ان لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں ڈائس اور کرسیاں دے دیں جس پر ان لوگوں نے اپنی مرضی سے پریس کلب کے باہر پریس کانفرنس کی۔ ہماری طرف سے ان کی سینئر قیادت کو کسی نے نہیں روکا۔

اس پریس کانفرنس کے دوران پریس کلب کے باہر ہنگامہ آرائی بھی ہوئی اور صحافی مطیع اللہ جان کے سوال پر انہیں روکنے کی کوشش کی گئی جس پر صحافیوں نے زور دیا کہ وہ لازمی سوال کریں گے۔ بعد ازاں یہ پریس کانفرنس سوال جواب سیشن کے بغیر ہی ختم ہوگئی۔

XS
SM
MD
LG