صحافیوں کو فون پر ہر وقت ہی واٹس ایپ میسیجز موصول ہورہے ہوتے ہیں لیکن 30 اکتوبر کو آنے والے چند نوٹی فکیشن سے اندازہ ہوا کہ اپنی برادری میں سے کوئی دنیا چھوڑ گیا۔ 'لیڈنگ لیڈیز' نامی واٹس ایپ گروپ میں لاہور کی تقریباً تمام خواتین صحافی شامل ہیں۔ صدف کے انتقال کی خبر بھی سب سے پہلے اسی گروپ میں آئی۔
گروپ میں صدف کی تصویر کے ساتھ دو جملوں میں درج تھا کہ "صحافی صدف نعیم عمران خان کے کنٹینر تلے آگئیں اور اسپتال لے جانے سے پہلے ہی دم توڑ چُکی تھیں۔" یہ خبر مجھ سمیت بہت سے صحافیوں کے لیے چونکا دینے والی تھی۔
بطور صحافی میں نے خبر کو چیک کرنے کے لیے سب سے پہلے خبروں سے متعلق دوسرے واٹس ایپ گروپ ٹٹولے، فیس بک پر چیک کیا کہ شاید لانگ مارچ کی کوریج پر جو صحافی موجود ہیں اُن میں سے کسی کی طرف سے کوئی خبر شیئر کی گئی ہو، لیکن کہیں کوئی اپڈیٹ نہیں تھی۔
اس سے پہلے کہ موقع پر موجود کسی ساتھی کو کال کرتی، واٹس ایپ گروپس میں تصاویر، ویڈیوز اور حادثے کی تفصیلات شیئر ہونے لگیں، جس سے معلوم ہوا کہ خبر درست ہے۔ لیکن دل اس خبر کو ماننےکو تیار نہیں تھا۔ میں جانتی تھی کہ صدف نامی لڑکی مقامی چینل میں کام کرتی ہے، بہت سے ایونٹس میں نظر بھی آئی لیکن نہ کبھی براہ راست کوئی گفتگو ہوئی اور نہ ہی کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر رسمی دوستی ہوئی۔
لیکن صدف کے چہرے سے آشنائی برسوں سے تھی اور بطور صحافی ایک خبر کے لیے تگ و دو کرنے اور عوامی جلسوں، ریلیوں اور لانگ مارچ کی کوریج کے دوران صحافیوں کی مشکلات سے واقفیت کے باعث صدف کے ساتھ پیش آنے واقعے کو محسوس کرسکی۔ اور صرف میں ہی نہیں جس صحافی سے مُلاقات ہوئی سب ہی اشک بار تھے اور ان کے دل سے اس تکلیف کو محسوس کررہے تھے۔
صدف کے جنازے کا وقت رات ایک بجے طے ہوا تو جنازے میں شرکت کے لیے اس کے گھر پہنچی۔ صحافیوں کے علاوہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی ان کے گھر موجود تھیں۔ سوگواران میں صدف کی والدہ کو پہچاننا مشکل نہیں تھا۔ ایک جوان بیٹی کی موت نے جیسے ایک ماں کی دنیا اندھیر کردی تھی۔ رشتہ داروں کے علاوہ صدف کے شعبے کے دوست اور جاننے والے سب ہی تعزیت کے لیے ان ماں کے ساتھ ان کا غم بانٹنے کی کوشش کررہے تھے اور بتاتے رہے کہ آپ کی بیٹی کیسے اپنے شعبے میں ایکٹیو رہتی تھی۔
صدف کی والدہ کے ساتھ بیٹھی پی ٹی آئی کی رکنِ اسمبلی عائشہ علی بھٹہ اور ڈیزائنر ملائکہ خان بتاتی ہیں کہ صدف ہمیشہ انٹرویوز کے لیے انہیں فون کرتی تھیں اور ہنیشہ عزت سے ملتی تھی۔
جنازے میں شریک بہت سے صحافیوں سے ملاقات ہوئی ، سب ہی صدف کی اچھائی اور صحافتی نظام پر سوال اٹھاتے نظر آئے۔ 10 سال سے صدف کو بطور فیلڈ ساتھی جاننے والی صحافی سعدیہ خان کہتی ہیں کہ بحثیت خاتون رپورٹر ہم لوگ تھک جاتے تھے کہ ہماری چھ یا سات بجے چھٹی ہوجائے اور ہم گھر چلیں جائیں۔ لیکن صدف کہتی تھی کہ اس کے چینل میں سب اسی پر انحصار کرتے ہیں اس لیے اس کی کوئی ٹائمنگ نہیں ہے۔
سعدیہ خان کے بقول "ہم صبح بھی اسے فیلڈ میں سڑکوں پر کوریج کرتا دیکھتے تھے اور رات میں بھی وہ ڈیوٹی کررہی ہوتی تھی۔بطور خاتون صحافی اس نے ہمارے معاشرے کی بہت سی چیزیں برداشت کی ہیں۔"
سعدیہ کہتی ہیں کہ انہیں پریس کلب کے سالانہ انتخابات 2021 میں صدف کو قریب سے جاننے کا موقع ملا جب دونوں بطور گورننگ باڈی امیدوار انتخابی مہم میں حصہ لے رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن میں کم ووٹ ملنے پر وہ بہت عرصہ دل برداشتہ بھی رہیں۔ سعدیہ شکوہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہی لوگ جو اس کے خلاف باتیں کرتے تھے آج اس کی تعریف کررہے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ہم اپنے لوگوں کی زندگی میں ان کی عزت کرنا سیکھیں۔
صدف کے ساتھ کام کرنے والی خاتون صحافی سعدیہ کہتی ہیں کہ خصوصاً سیاسی بیٹ کور کرنے والے مرد صحافیوں کی گروپنگ میں خاتون صحافیوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا کہ وہ آگے بڑھ کر کام کریں۔ ان کے بقول "ہمارے شعبے میں سمجھا جاتا ہے کہ سیاسی بیٹ کے معیار پر ایک خاتون پورا نہیں اتر سکتی۔"
ان کا مزید کہنا ہے کہ صدف سیاسی بیٹ بھی کرتی تھی تو اسے کہیں پہنچنے کے لیے یا کسی کا انٹرویو کرنے کے لیے کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کئی مرد صحافی، یوٹیوبرز، وی لاگرز روزانہ کی بنیاد پر عمران خان کا انٹرویو اپنے سوشل میڈیا پیجز پر شائع کرتے رہے ہیں۔ وہ بھی اسی کوشش میں تھی کہ اس کے چینل پر خان صاحب کا انٹرویو چل جائے تاکہ ریٹنگ اچھی آئے۔
سعدیہ بتاتی ہیں کہ اکثر ملاقاتوں میں دیگر صحافی خواتین کی جانب سے صدف کو کہا جاتا تھا کہ چینل جتنی تنخواہ دیتا ہے اتنا ہی کام کیا کرو یا کسی اور چینل میں اپلائی کرو لیکن وہ کہتی تھی کہ میں اس میڈیا ہاؤس میں 20 سال سے کام کررہی ہوں اب عُمر بھی زیادہ ہوگئی ہے تو کوئی رکھے گا نہیں۔ کہیں اپلائی کرتی ہوں تو کہتے ہیں کہ آپ صرف شوبز کی بیٹ کرتی ہیں تو ہم کیسے مان لیں کہ آپ کو اور کسی بیٹ میں کام آتا ہے۔
صحافیوں خصوصاً خواتین کی تربیت پر بات کرتے ہوئے سعدیہ بتاتی ہیں کہ ہمارے ہاں ٹریننگ نہیں ہے، ہم جب میڈیا انڈسٹری میں آتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ 'خاتون' نہیں بلکہ رپورٹر ہیں تو ہمارا مائنڈ سیٹ وہیں سے بدل جاتا ہے۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ بطور خاتون رپورٹر ہم کسی مخصوص جگہ پر نہیں جاسکتے۔
سعدیہ کے بقول "میں نے بھی جلسے کوور کیے ہیں، مجھے پتہ ہے کہ آپ کی جسمانی صلاحیت اتنی نہیں ہوتی کہ آپ دھکے کھا سکو ، آپ مردوں کے درمیان نہیں جا سکتے لیکن آپ سے امید کی جاتی ہے کہ آپ ایسا کریں، کیوں کہ اگر میں نے یہ کام نہیں کیا تو یہ میری ناکامی ہے۔پریشر آپ کو کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔"
'رپورٹر کو اپنی زندگی سے زیادہ ادارے کو کام دینے کی فکر ہوتی ہے'
لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چوہدری کہتے ہیں کہ صدف کی محنت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے کنٹینر کے ساتھ انہوں نے دو سے اڑھائی کلومیٹر تک دوڑ لگائی ہے، صرف اس لیے کہ وہ اپنی نوکری کو جسٹیفائی کر سکیں اور کسی طرح عمران خان کا انٹرویو کرلیں۔
اعظم چوہدری کے بقول پاکستان میں صحافیوں کی تربیت کا باقاعدہ کوئی نظام نہیں ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اپنے اداروں میں بیٹھ کر فیلڈ صحافیوں کو باقاعدہ گائیڈ کرتے ہیں، وقتاً فوقتاً تربیت بھی دلواتے ہیں اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ آپ نے کتنے فاصلے پر رہتے ہوئے کام کرنا ہے۔ لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ پاکستانی نیوز روم کے لوگ فیلڈ اسٹاف پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ آپ اور نزدیک جائیں اور خبر لے کر آئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے میڈیا ہاؤسز میں جو ورکر کام کررہے ہیں سب سے پہلے تو ان پر معاشی دباؤ بہت زیادہ ہے، دوسری طرف جب وہ فیلڈ میں کام کررہے ہوتے ہیں تو انہیں اپنی زندگی سے زیادہ یہ فکر ہوتی ہے کہ میں نے یہ کام پروڈیوس کرکے اپنے ادارے کو دینا ہے۔
'خبر اکٹھی کرنے کے جنون میں آج صدف خود خبر بن گئی'
صدف نعیم شوبز حلقوں میں بھی پہچانی جاتی تھیں۔ ان کا زیادہ وقت شوبز رپورٹنگ کرتے بھی گزرا۔ اُن کے جنازے میں شریک اخبارِ جہاں سے تعلق رکھنے والے شوبز رپورٹر ٹھاکر لاہوری کا کہنا تھا کہ صدف کی موت کی خبر نے انہیں بہت صدمہ دیا ہے۔ صدف ہر فن مولا تھی اور آج خبر اکٹھی کرنے کے جنون میں خود خبر بن گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صدف کی جانب سے چار بج کر بارہ منٹ پر جو آخری میسیج گروپ میں آیا ، اس میں انہوں نے پیر کے روز فلم 'ضرار' کی پریس کانفرنس میں شمولیت کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔
مردوں کے ہجوم میں لوگوں کی تعزیت سمیٹنے والوں میں صدف کے والد بھی موجود تھے۔ صدف کے والد کا کہنا تھا کہ میری بیٹی اپنے کام سے بہت محبت کرتی تھی، موت سے دو روز پہلے عمران خان کا انٹرویو کرنے پر بہت خوش تھی اور واپسی پر ہمارے گھر آکر ہمارے ساتھ کھانا کھایا، اپنی خوشی بانٹی اور بس وہی ان کی اپنی بیٹی کے ساتھ آخری ملاقات تھی۔
صدف کی بڑی بھابھی (جیٹھانی) کے مطابق ہفتے کی رات ان کے بیٹے کا ولیمہ تھا اور تمام خاندان جمع تھا جس میں شرکت کے لیے صدف ڈیوٹی کے باعث معذرت کررکھی تھی۔ لیکن لانگ مارچ کا قافلہ لاہور کے قریب ہونے کی وجہ سے انہیں موقع ملا اور وہ شادی میں شرکت کے لیے پہنچ گئیں۔
صدف کی موت کے بعد ڈیڈ ہاؤس تک ان کے ساتھ جانے والے صحافی قذافی بٹ کہتے ہیں کہ صدف کی موت صحافی برادری کے لیے انتہائی دلخراش واقعہ ہے۔ غرض کہ لانگ مارچ کے دوران صدف کے ساتھ ان کا براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہوا لیکن حادثے کا پتہ چلتے ہی انہوں نے اسپتال تک صدف کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔
دعا مرزا گزشتہ پانچ برسوں سے کرائم رپورٹنگ کررہی ہیں۔ دعا کہتی ہیں کہ ان کی تمام صحافی خواتین سے درخواست ہے کہ جب بھی فیلڈ میں جائیں اپنی حفاظت یقینی بنائیں۔
دعا بتاتی ہیں کہ صحافت کے آغاز میں وہ بھی ہرایونٹ کی کوریج کے لیے جاتی تھیں، لیکن پھر انہوں نے اپنے استاد کی نصیحت پر انٹرنیشنل سرٹیفکیشن آف پروٹیکشن آفیسر کا تربیتی کورس بھی کیا۔ وہ تمام میڈیا اداروں سے درخواست کرتی ہیں کہ اپنے ملازمین کو سیفٹی اور سیکیورٹی کے کورسز کروائیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھ سمیت ہر صحافی کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے پاس خبر ہو، اس کی ایک وجہ ہماری اپنی نوکری کے ساتھ لگن ہے لیکن اگر ہماری تربیت اچھی کردی جائے کہ ہم جب بھی کسی ریڈ زون یا ہجوم میں جاتے ہیں تو ہمیں ہماری سیکیورٹی کو کس انداز سے دیکھنا ہے۔
کرائم رپورٹر کہتی ہیں کہ اس کورس نے انہیں ذاتی حفاظت کے بہت سے اصول سکھائے ہیں۔ صدف کی موت کے بعد دعا نے ہنگامی بنیادوں پر منگل کے روز خواتین صحافیوں کے لیے سیفٹی تربیتی ورکشاپ کا اہتمام بھی کیا ہے۔