رسائی کے لنکس

 چین کی صفر کوویڈ پالیسی کیا ہے؟


 چین میں کویڈ 19 ٹسٹنگ کی ایک لیبارٹری : فوٹو اے ایف پی
چین میں کویڈ 19 ٹسٹنگ کی ایک لیبارٹری : فوٹو اے ایف پی

چین کی کووڈ 19 سےمتعلق سخت پابندیوں پر ملک بھر میں مظاہرےشروع ہو گئے ہیں ۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ بہت سے چینی اس طویل لاک ڈاؤن اور بڑے پیمانے کی ٹیسٹنگ سے تنگ آچکے ہیں جو چین کی زیرو کوویڈ پالیسی کاحصہ ہیں۔ اس پالیسی کا ایک تفصیلی جائزہ :

چین کی کوویڈ اسٹریٹیجی کیا ہے؟

چین کا کوویڈ 19 سے نمٹنے کا مقصد کیسز کو جہاں تک ممکن ہو زیرو تک رکھنا ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ ، بیماروں کو سرکاری تنصیبات میں قرنطینہ میں رکھنے کی پالیسی کے نفاذ ساتھ ساتھ ایسے سخت لاک ڈاؤن پر عمل درآمد جاری رکھا ہوا ہے جو پورے شہروں پر محیط ہو سکتے ہیں ۔

یہ پالیسی کب شروع ہوئی ؟

چین نے دنیا کوا س وقت حیران کر دیا جب اس نے 2019 میں وائرس کی شروعات کے دوران ووہان کے پورے شہر کو لاک ڈاون کر دیا اور 11 ملین سے زیادہ رہائشیوں کو ان کے گھروں تک محدود کر دیا۔ اس وقت سے اب تک چین یہ طریقے جاری رکھے ہوئے ہے اور انہیں کوویڈ 19 کی اپنی زیرو پالیسی میں شامل کیا ہوا ہے ۔

اس پالیسی کے لیے بیجنگ کا استدلال کیا ہے ؟

چین کا کہنا ہے کہ اس کی حکمت عملی نے کرونا وائرس کے کیسز اور اموات کو مغربی ملکوں کے مقابلے میں کم رکھاہے ،جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے کرونا وائرس ریسورس سینٹر کے مطابق چین کی ایک اعشاریہ 4 ارب کی آبادی میں کوویڈ 19 سے تقریباً 16 ہزار اموات ہوئیں جب کہ امریکہ میں، جو وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ، دس لاکھ سے زیادہ اموات ریکارڈ ہوئیں ۔

پالیسی پر عوامی رد عمل؟

ابتداء میں چینی حکومت کے اس طرز عمل پر عدم اطمینان کم سے کم تھا اور بہت سے لوگ اس بارے میں فخر کا اظہار کرتے تھے کہ ان کے ملک میں کیسز کو تقریباً صفر تک رکھنے کی اہلیت موجود ہے۔ تاہم اب جب وائر س کی مزید پھیلنے کی صلاحیت بڑھ گئی ہے، چین بھر میں کیسز میں اضافہ اور لاک ڈاون مزید سخت ہو گئے ہیں جس پر عوامی غصہ بھی بڑھ گیا ہے جس کے نتیجے میں متعدد شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں ۔

چین کے علاقے اورمچی میں کوویڈ پالیسی کے خلاف 27 نومبر 2022 کو ہونے والا ایک احتجاجی مظاہرہ : فوٹو اے ایف پی
چین کے علاقے اورمچی میں کوویڈ پالیسی کے خلاف 27 نومبر 2022 کو ہونے والا ایک احتجاجی مظاہرہ : فوٹو اے ایف پی

چین کے طریقے کیا ہیں ؟

چین کی قومی صفر کوویڈ پالیسی کانفاذ مقامی سطح پر ہوتا ہے ۔ اگرچہ پالیسیاں علاقے کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن ان سب میں یہ طریقے استعمال ہوتے ہیں ۔

لاک ڈاؤن کا نفاذ ایسے میں بھی ہو سکتا ہے جب کرونا وائرس کےصرف چند کیسز کا پتہ چل جائے۔ متاثرہ علاقہ محلوں یہاں تک کہ پورے شہروں تک پھیل سکتا ہے۔ بڑے شہر وں کو ایک وقت میں ہفتوں یا مہینوں کے لیے بند کیا جا چکا ہے ۔

حکام رابطوں کا پتہ چلانے والی کنٹریکٹ ٹریسنگ ایپس کے استعمال سے لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو ٹریک کیا جا سکے۔

رہائشیوں کے لیےلازمی ہے کہ وہ عوامی مقامات میں داخل ہوتے ہوئے ایپ استعمال کریں اور اگر وہ کسی متاثرہ شخص کے ساتھ راستہ عبور کرتے ہیں یا کسی زیادہ خطرے والے علاقے میں سفر کرتے ہیں تو انہیں اس بارے میں مطلع کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ان کے لیے ٹیسٹنگ یا قرنطینہ لازمی ہوتا ہے ۔

حکومت ان جگہوں پر بڑے پیمانے پر ٹسٹنگ کرتی ہے جہاں کوویڈ۔19 کے کیس کی اطلاع ملی ہو۔ حتی کہ ان جگہوں پر بھی جہاں کوئی نیا کیس سامنے نہ آیا ہو ، رہائشیوں کو اکثر کاروبار یا کسی عوامی عمارت میں میں داخل ہونے کے لیے حال ہی میں کرائے گئے منفی کرونا ٹیسٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔

جس کسی شخص کا انفیکشن کے شکار کسی بھی فرد سے رابطہ ہوا ہو, اسے یا تو کسی سرکاری قرنطینہ کی عمارت میں رکھا جاتا ہے یا اسے الگ تھلگ رہنے کا حکم دیا جاتا ہے ۔

یہاں تک کہ ان کو بھی جن کا کسی متاثرہ شخص سے یا ممکنہ متاثرہ شخص سےصرف دور سے ہی رابطہ ہوا ہو, الگ تھلگ کیا جا سکتاہے ۔ اس قسم کے حکم کا نفاز رہائشیوں کے دروازوں کے ساتھ الیکٹرانک سیلز لگا کر کیا جاتا ہے ۔

پالیسی کے منفی اثرات کیا ہیں؟

اگرچہ چین کی کوویڈٖ پالیسی نے کیسز کی تعداد کو بیشتر ملکوں کے مقابلے میں کم رکھا ہے، لیکن اس کے نفاذ کے طریقوں کی اسے قیمت ادا کرنا پڑی ہے ۔

شمال مغرب میں یننگ جیسے کچھ شہروں میں لاک ڈاؤن کے نتیجےمیں خوراک اور روزمرہ کی دوسری اشیائے ضروریات کی بڑے پیمانے پر قلت پیدا ہو گئی۔

چین کی صفر-کوویڈ پالیسی کا سپلائی چینز سمیت معیشت پر بہت بڑا اثر پڑا ہے۔ 2022 کے لیے بیجنگ کی اقتصادی ترقی کا ہدف 5 اعشاریہ 5 فیصد تھا، لیکن ستمبر میں ختم ہونے والے گزشتہ سال میں ملکی معیشت میں صرف 3 اعشاریہ 9 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

اس پالیسی نے روزمرہ زندگی اور سفر کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔ یہاں تک کہ سخت لاک ڈاؤن کے تحت نہ رہنے والے رہائشیوں کو بھی بار بار ٹیسٹنگ اور سفر پر عائد پابندیوں کو لازمی طور پر برداشت کرنا پڑتا ہے

ویکسین کی صورت حال؟

چین نے ابھی تک کسی بھی غیر ملکی ساختہ ویکسین کی اجازت نہیں دی ہے، جو انتہائی موثر پائی گئی ہیں۔ اس کے شہریوں کو ایسی ویکسیز دی گئی ہیں جو چین میں تیار کی گئی ہیں اور یہ mRNA ٹیکنالوجی پر مبنی نہیں ہیں جو زیادہ تر مغرب کی تیار کردہ ویکسینز میں استعمال ہوتی ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، چین کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی کو مکمل طور پر ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ زیادہ تر رہائشیوں میں کرونا وائرس کے خلاف قدرتی مزاحمت موجود نہیں ہے کیوں کہ یہ وائرس چین میں اتنا زیادہ نہیں پھیلا ہے جتنا کہ بہت سے دوسرے ملکوں میں پھیلا ہے ۔

بیجنگ میں کوویڈ ویکسینیشن کا ایک مرکز کے باہر لوگ چینی ساختہ ویکسین لگوانے کے انتظار میں : فوٹو ایسو سی ایٹڈ پریس
بیجنگ میں کوویڈ ویکسینیشن کا ایک مرکز کے باہر لوگ چینی ساختہ ویکسین لگوانے کے انتظار میں : فوٹو ایسو سی ایٹڈ پریس

حکومت پالیسی کی کتنی حمایت کرتی ہے؟

وبا کے آغاز سے ہی صفر کوویڈ پالیسی صدر شی جن پنگ کی اہم پالیسی رہی ہے۔ چین کے سرکاری میڈیا نے شی کے تحت چلنے والے سیاسی نظام حکومت کو ملک میں کوویڈ کے کیسز اور اموات کو کامیابی سے روکنے کی بنیادی وجہ قرار دیا ہے ۔

چین اب کیا کرے گا؟

چین میں کوویڈ کے کیسز بڑھ رہے ہیں کیونکہ اس وائرس میں مزید پھیلاؤ کی صلاحیت میں اضافہ ہو چکا ہے ، جس کی وجہ سے حکومت کی کنٹرول کی سخت پالیسیوں کی عوامی مخالفت بڑھ رہی ہے۔ ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے بعد، چین نے اس ہفتے وباے متعلق اپنے کچھ قوانین میں تو نرمی شروع کی ہے ۔ تاہم، اس نے اپنی صفرکوویڈ حکمت عملی کی توثیق کی ہے ۔

(وی او اے نیوز)

XS
SM
MD
LG