رسائی کے لنکس

یوکرین جنگ میں خودکار ڈرون کے استعمال کا خدشہ، کیا جنگ کے اصول بدل ر ہے ہیں؟


یوکرین کے فوجی ڈونیٹسک کے علاقے باخموت سے روس کی پوزیشنوں پر ڈرون لانچ کرتے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
یوکرین کے فوجی ڈونیٹسک کے علاقے باخموت سے روس کی پوزیشنوں پر ڈرون لانچ کرتے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

یوکرین میں جدید ڈرون کی حالیہ پیش رفت نے طویل عرصے سے متوقع ٹیکنالوجی کے رجحان کو تیز کر دیا ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یوکرین جلد ہی دنیا کے پہلے مکمل طور پر خود مختار لڑنے والے روبوٹس کو میدانِ جنگ میں لا سکتا ہے اور اس سے جنگ کے ایک نئے دور کا ممکنہ آغاز ہو سکتا ہے۔

عسکری مبصرین اور مصنوعی ذہانت کے ماہرین کے مطابق جنگ جتنی طویل ہو گی اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ ڈرون کو انسانوں کی مدد کے بغیر اہداف کی شناخت، انتخاب اور ان پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

ڈرون سے فوجی ٹیکنالوجی میں اتنا ہی گہرا انقلاب آئے گا جتنا کہ مشین گن کے تعارف سے آیا تھا۔

خبررساں ادارے 'ایسو سی ایٹڈ پریس' کے مطابق یوکرین کے پاس پہلے سے ہی نیم خود مختار حملہ آور ڈرون اور انسداد ڈرون ہتھیار موجود ہیں جب کہ روس بھی ایسے ہی ہتھیار رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے البتہ ابھی تک یہ دعویٰ ثابت نہیں ہوا۔

تاہم اب تک ایسی کوئی مصدقہ مثال نہیں ملتی کہ کسی قوم نے ایسے جنگی روبوٹس میدان میں اتارے ہوں جنہوں نے مکمل طور پر خود مخالفین کو نشانہ بنایا ہو۔

جنگ زدہ یوکرین میں جانوروں کو بچانے کے لیے ڈرون کا استعمال
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:53 0:00

ماہرین کا کہنا ہے کہ روس یا یوکرین، یا دونوں کا جنگ میں ایسے روبوٹس کو استعمال کرنا صرف تھوڑے وقت کی بات دکھائی دیتی ہے۔

ان روبوٹس کے ناگزیر استعمال کے بارے میں احساس ان کارکنوں کو بھی ہے جو قاتل ڈرونز پر پابندی لگانے کے لیے برسوں سے کوشش کر رہے ہیں ۔ لیکن اب انہیں بھی یقین ہے کہ انہیں ہتھیاروں کے جارحانہ استعمال کو محدود کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔

اس ضمن میں بات کرتے ہوئے یوکرین کے ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن منسٹر میخائیلو فیڈروف کہتے ہیں کہ مکمل طور پر خود مختار ڈرون ہتھیاروں کی تیاری 'ایک منطقی اور ناگزیر قدم' ہو گا اور یوکرین اس سمت میں بہت زیادہ تحقیق و ترقی کر رہا ہے۔

فیڈروف نے ایک حالیہ انٹرویو میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان کے خیال میں آئندہ چھ ماہ میں اس بات کے حقیقت بننے کا امکان بہت زیادہ ہے کہ یوکرین جنگ میں خودکار ڈرون حصہ لیں گے۔

کاؤنٹر ڈرون ٹیکنالوجی کیوں ضرورت بن گئی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:32 0:00

یوکرین کے جنگی ڈرون بنانے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم 'ایروروزوڈکا' کے شریک بانی لیفٹننٹ کرنل یاروسلاو ہونچار کہتے ہیں کہ یوکرین کے فوجی حکام نے فی الحال مکمل طور پر خودمختار مہلک ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی لگا ئی ہوئی ہے حالاں کہ ان کا یہ فیصلہ تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔

ان کے بقول، "ہم نے ابھی تک اس لائن کو عبور نہیں کیا اور میں نہیں جانتا کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔"

کرنل یاروسلاو کا گروپ یوکرین میں ڈرون کی تخلیق کا کام کرتا ہے جس نے سستے تجارتی ڈرون کو مہلک ہتھیاروں میں تبدیل کیا ہے۔

روس ایران یا کسی اور جگہ سے خود مختار مصنوعی ذہانت یعنی ڈرون حاصل کر سکتا ہے۔

ایران کی طرف سے فراہم کردہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے 'شہد ا 136' پھٹنے والے ڈرونز نے یوکرین کے پاور پلانٹس کو تباہ کیا ہے اور شہریوں کو دہشت زدہ کر دیا ہے البتہ یہ ڈرون زیادہ اسمارٹ نہیں ہیں۔

ایران کے پاس بڑھتے ہوئے ہتھیاروں میں دوسرے ڈرونز بھی ہیں جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ ان میں مصنوئی ذہانت بھی موجود ہے۔

ڈرون بنانے والے مغربی مینوفیکچررز کا کہنا ہے کہ یوکرین کسی بڑی پریشانی کے بغیر اپنے نیم خودمختار ہتھیاروں سے چلنے والے ڈرون کو مکمل طور پر خود مختار بنا سکتا ہے تاکہ میدان جنگ میں جیمنگ یعنی جمود سے بہتر طور پر بچ سکے۔

ان میں امریکی ساختہ "سوئچ بلیڈ 600" اور "پولش وارمیٹ" نامی ڈرونز شامل ہیں۔ ان دونوں ڈرونز کو فی الحال لائیو ویڈیو فیڈ پر اہداف کا انتخاب کرنے کے لیے انسانی احکامات کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ مصنوعی ذہانت کام کو مکمل کرتی ہے۔

ڈرون، جو تکنیکی طور پر "لوئٹرنگ گولہ بارود" کے نام سے جانا جاتاہے، کسی ہدف کو ٹھیک سے نشانہ بنانے کےلیے اس کے اوپر منٹوں تک منڈلا سکتا ہے۔

روس یوکرین تنازع میں ترکی کے ڈرون کا استعمال
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:29 0:00

فوجی ڈرونز کے استعمال سے متعلق بین الاقوامی زمینی اصول وضع کرنے کی کوششیں اب تک بے نتیجہ رہی ہیں۔

فوجی ڈرونز کے استعمال سے متعلق اقوامِ متحدہ میں نو سال تک غیر رسمی مذاکرات ہوتے رہے ہیں لیکن ان مذاکرات نے بہت کم پیش رفت کی ہے۔ امریکہ اور روس سمیت بڑی طاقتوں نے ڈرون کے استعمال پر پابندی کی مخالفت کی ہے۔

اقوامِ متحدہ کا آخری اجلاس پچھلے سال دسمبر میں بغیر کسی نئے دور کے شیڈول کے ختم ہوا تھا۔

آسٹریلوی ماہر تعلیم ٹوبی والش جو ،قاتل روبوٹس کے خلاف مہم چلاتے ہیں، کچھ ایسی حدود پر اتفاق رائے حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں جس میں ایسے نظاموں پر پابندی بھی شامل ہے جو افراد یا لوگوں کے زمروں کی شناخت یا ان پر حملہ کرنے کے لیے چہرے کی شناخت اور دیگر ڈیٹا کا استعمال کرتے ہیں۔

" مشینز بی ہیونگ بیڈلی" کتاب کے مصنف والش کہتے ہیں "اگر احتیاط نہ برتی گئی تو قاتل ڈرونز جوہری ہتھیاروں سے کہیں زیادہ آسانی سے پھیل جائیں گے۔

چین کے تیار کردہ ڈرون حساس ڈیٹا چوری کر سکتے ہیں
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:01 0:00

"اگر آپ ایک شخص کو مارنے کے لیے روبوٹ حاصل کر سکتے ہیں، تو آپ اسے ایک ہزار کو مارنے کے لیے حاصل کر سکتے ہیں۔"

ایک اور ماہر جارج میسن یونیورسٹی کے ہتھیاروں کی جدت کے تجزیہ کار زچری کالن بورن کے مطابق متعدد ممالک اور امریکی فوج کی ہر شاخ ایسے ڈرونز تیار کر رہی ہے جوایک ہی وقت میں اکٹھے ہو کر مہلک حملہ کر سکتے ہیں۔

تو کیا مستقبل کی جنگیں آخری ڈرون کی لڑائی بن جائیں گی؟

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے انجینئرنگ کے طلبہ کے ساتھ 2017 کی ٹیلی ویژن گفتگو میں یہی پیش گوئی کی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ"جب ایک فریق کے ڈرون دوسرے کے ڈرون سے تباہ ہوتے ہیں، تو اس کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔"

اس خبر میں شامل مواد خبررساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG