متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے ماضی میں الگ ہونے والے دھڑوں میں سے دو نے جمعرات کو دوبارہ پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس میں مارچ 2016 میں وجود میں آنے والی پاک سرزمین پارٹی اور 2018 میں پارٹی پالیسی سے اختلاف رکھنے پر پارٹی سے نکالے گئے ڈاکٹر فاروق ستار کا دھڑا بھی شامل ہے۔
بارہ جنوری کی سرد شام میں ہوئی اس پیش رفت نے ایم کیو ایم کو ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بنا دیا ہے۔ ماضی میں ایک دوسرے پر انتہائی سنگین الزامات لگانے والے تمام رہنما ایک ساتھ بیٹھے نظر آئے اور دونوں دھڑوں نے انضمام کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی واضح الفاظ میں کہا کہ 15 جنوری کو کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیں گے۔
تاہم الیکشن کمیشن نے ہفتے کو واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں 15 جنوری کو ہی بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔ ای سی پی نے سندھ حکومت کی جانب سے جمعرات اور جمعے کو کی گئی دونوں درخواستیں مسترد کردی ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے قبل اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ماضی میں بلاشرکت غیر ے کراچی اور حیدرآباد میں کئی عشروں تک راج کرنے والی ایم کیو ایم دوبارہ اپنا وہ مقام حاصل کرپائے گی؟ 22 اگست 2016 تک بانی ایم کیو ایم الطاف حسین اس جماعت کو خود ساختہ جلا وطنی میں لندن سے منظم انداز میں چلاتے رہے۔ لیکن ایک متنازع تقریر کے بعد ان کی اپنی جماعت نے خود بانی سے علیحدگی کا اعلان کیا اور ایم کیو ایم پاکستان کی بنیاد رکھی۔
تاہم الطاف حسین کے بعد بننے والی ایم کیو ایم تنازعات اور اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی۔ فاروق ستار جو پارٹی کےسینئر رہنما تھے وہ 2018 میں پارٹی سے الگ ہوگئے۔ اسی سال ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں 21 میں سے 14 نشستیں حاصل کرکے ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کو کم کردیا۔
تاہم ایم کیو ایم اسے اپنے مینڈیٹ پر ڈاکہ زنی قرار دیتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ یہ نشستیں اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی کو دیں۔
'ایم کیو ایم تنازعات سے شروع سے ہی منسلک رہی ہے'
کراچی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی مجاہد بریلوی جنرل (ر) خالد محمود عارف کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے ساتھ پہلے دن سے تنازعات منسلک رہے ہیں۔ جب پیپلزپارٹی کو جنرل ضیاءالحق کے دور ِ حکومت میں دبانے کی کوشش کی گئی تو سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کو پروان چڑھایا گیا۔
ان کے بقول بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست میں خفیہ ایجنسیوں کا کردار کوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ اس کی ابتدا ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے ہی ہوئی جنہوں نے خود فوج کی خفیہ ایجنسی (آئی ایس آئی) میں اپنے مخالف سیاسی رہنماؤں کو قابو میں رکھنے کے لیے سیاسی ونگ بنایا۔
مجاہد بریلوی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کو بنانے اور پھر اس کے عروج اور فری ہینڈ دینے تک خفیہ طاقتوں کا کردار اور عمل دخل واضح ہے۔ لیکن جب ایسی جماعتیں آپ کے ہاتھ سے نکل جاتی ہیں تو پھر اس میں دھڑے بندی کروائی جاتی ہے اور اس میں بھی سیاسی انجینئرنگ مکمل طور پر عیاں ہے۔
ان کے خیال میں اب صورتِ حال مختلف ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی منصوبہ بندی لگتی ہے کہ تحریک اںصاف کو کراچی سمیت شہری علاقوں سے باہر رکھا جائے توپھر سے ان دھڑوں کو متحد کیا جا رہا ہے۔
ان کے خیال میں مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک جماعت کو چلانے کے لیے کروڑوں روپے ماہانہ کی ضرورت ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر تمام دھڑے متحد بھی ہوجائیں تو کیا یہ جماعت ماضی کی طرح عوامی پذیرائی حاصل کرپائے گی؟
مجاہد بریلوی کے خیال میں حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج تو کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ گزشتہ دس برسوں میں جو نوجوان ووٹر رجسٹرڈ ہوئے ہیں ان میں سے انتہائی کم تعداد ایم کیو ایم کو پسند کرتی ہے۔ ان کے بقول تحریک لبیک پاکستان نے ایم کیو ایم کا ووٹ بینک کافی حد تک توڑا ہے۔
'سیاسی جماعتوں کو اب کھلا میدان دستیاب نہیں ہوگا'
صحافی اسلم خان کی رائے میں ایم کیو ایم کے انضمام سے کچھ فرق تو ضرور پڑے گا اور تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور تحریک لبیک کو کھلا میدان نہیں مل پائے گا جیسے وہ پہلے توقع کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوری طور پر تو شاید کوئی اثرات نہ ہوپائیں کیوں کہ ایم کیو ایم کا پرانا ووٹر ان سے ناراض ہے اور ان کو منانے کے لئے بلدیاتی انتخابات میں وقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن یہ صف بندی اس سال ہونے والے عام انتخابات کے لیے ہو رہی ہے اور ایم کیو ایم کے دھڑوں کے انضمام سے فرق پڑے گا۔
اس سوال پر کہ کیا ماضی والی ایم کیو ایم دوبارہ دیکھی جاسکے گی؟ اسلم خان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے لیے یہ سفر اتنا بھی آسان نہیں ہوگا۔