رسائی کے لنکس

آئی ایم ایف اور حکومت کے مذاکرات کا حتمی مرحلہ؛ 'معاہدہ ہو بھی گیا تو اصلاحات ناگزیر ہوں گی'


پاکستان میں موجود بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے جائزہ مشن کے ساتھ تیکنیکی سطح کے مذاکرات مکمل ہونے کے بعد اب مشن کے حکومت پاکستان کے ساتھ پالیسی سطح پر بات چیت جاری ہے۔

اطلاعات کے مطابق مذاکرات انتہائی اہم مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور یہ پیش رفت پاکستان کو قرض پروگرام کی نویں قسط جاری کرنے کے لیے اہم سمجھی جارہی ہے۔

خیال رہے کہ جائزہ مشن دارالحکومت اسلام آباد میں جمعرات تک موجود ہے اور مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ آئندہ 48 گھنٹوں میں ہوجائے گا۔

بجلی کی قیمتوں میں 50 فی صد فی یونٹ اضافہ متوقع

دوسری جانب ذرائع کے مطابق وزیرِاعظم نے منگل کو ہونے والے ایک اجلاس میں حکام کو اس بات کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے کہ آئی ایم ایف کے بجلی کے سیکٹر میں گردشی قرضہ کم کرنے کے مطالبے کے تحت بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کیا جائے۔

اس وقت ملک میں بجلی کے اوسط یونٹ کی قیمت تقریباً 24 روپے ہے جس میں 50 فی صد اضافے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جس سے گردشی قرضوں میں کمی لانے کا ہدف پورا کیا جاسکے گا۔

یہی نہیں بلکہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کو برقرار رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے 180 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے کے لیے بھی تیار نظر آتی ہے تاکہ مالیاتی خسارے کو پرائمری سرپلس میں رکھا جائے جو آئی ایم ایف اور حکومت نے گزشتہ قسط ملنے پر طے کیا تھا۔

ترقیاتی بجٹ میں 50 فی صد سے زائد کمی اور جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے کی تجویز

دوسری جانب حکومت کو محاصل بڑھانے کے لیے جہاں نئے ٹیکس لگانے پڑ رہے ہیں وہیں ترقیاتی بجٹ کو بھی 327 ارب روپے تک محدود کرنے کا سوچ رہی ہے جو سالانہ بجٹ میں 727 ارب روپے رکھے گئے تھے۔ یعنی کُل ترقیاتی بجٹ کا 50 فی صد سے بھی زیادہ حصہ گھٹایا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ حکومت جنرل سیلز ٹیکس کی شرح بھی 17 سے بڑھا کر 18 فی صد کرنے کی تجویز پر بھی غور کر رہی ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی ہوں گی؟

ادھر پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی مد میں آمدنی کو پورا کرنے کے لیے جہاں پیٹرول اور ڈیزل وغیرہ پر مزید لیوی لگائی جائے گی وہیں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ بڑی کمی سے پیٹرولیم کی قیمتوں میں مزید اضافے کا باعث بنے گی۔

ماہرین معیشت کے مطابق مہنگائی میں مزید تیزی آئے گی جو پہلے ہی جنوری کے اختتام پر 27 فی صد سے زائد رہی ہے۔

ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق حکومتی اخراجات میں کٹوتی کی بھی اشد ضرورت ہے کیوں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ بنیادی بجٹ خسارہ اس مقام پر رہے جس کا فنڈ سے وعدہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے اتفاق کیا کہ ان اقدامات سے مہنگائی مزید زور پکڑے گی اور ایسی صورتِ حال میں حکومت کو انتہائی کم آمدنی والے طبقے کے لیے انکم سپورٹ پروگرام کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے جب کہ سیلاب سے تباہ حال لوگوں کی امداد کو بھی مزید بڑھایا جائے۔

"فنڈ پروگرام بحال اور دوست ممالک سے قرض مل جائے تب بھی اب اصلاحات کے بغیر چارہ نہیں"

دوسری جانب سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ مالیاتی سرپلس کو برقرار رکھنے کے لیے اخراجات میں بڑی کمی کی ضرورت ہے جیسا کہ ماضی میں آئی ایم ایف کے ساتھ اتفاق کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح صوبائی سرپلس بجٹ کو بھی آسانی سے مزید بڑھایا جا سکتا ہے جس کا وعدہ آئی ایم ایف سے کیا جا چکا ہے لیکن صوبے اس وعدے کے تحت دیے گئے ہدف کو حاصل کرنے پر تیار نظر نہیں آتے۔

ڈاکٹر شاہ نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان کو قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں اور پاکستان نے ابھی تک چین کے ساتھ قرضوں کی تنظیم نو پر بات چیت شروع نہیں کی ہے جس نے پاکستان کے کل واجب الادا قرضوں میں سے تقریبا 23 فی صد قرض دے رکھا ہے۔

تاہم، چین نے حال ہی میں دیوالیہ ہونے والے ملک سری لنکا کو قرض کی واپس ادائیگی کی رعایت دی ہے اور پاکستان کو بھی اسی قسم کی رعایت درکار ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت پہلے آئی ایم ایف مذاکرات کو ترجیح دینا چاہتی ہے اور پھر اس کا رخ چین، متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی عرب جیسے دوست ممالک کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات کی جانب ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر سلمان شاہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال بھی ہوجائے اور دوست ممالک سے قرض ملنے کی سہولت بھی مل جائے تب بھی پاکستان کی معیشت اب مزید اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ توانائی کے شعبوں، ڈی ریگولیشنز، ملکی کاروباری اداروں میں پیداواری صلاحیت بڑھانے اور کفایت شعاری کے اقدامات جیسی اصلاحات میں مزید تاخیر کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب یہ اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہیں اور ان کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG