پاکستان کے صوبۂ پنجاب میں گزشتہ چند دِنوں سے یہ افواہیں گردش کررہی تھیں کہ ملک میں پیٹرول اور ڈیزل کی قلت ہونے والی ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران لاہور سمیت بیش تر شہروں میں پمپس پر لگی قطاریں اور کئی پیٹرول پمپس بند دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ افواہیں حقیقت میں بدل چکی ہیں۔
پنجاب سمیت ملک بھر میں گزشتہ کئی روز سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری تھا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرت میں حکومت عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط پوری کرنے کے لیے پیڑول پر عائد لیوی اور ٹیکس پر مزید اضافہ کرنے والی ہے جس کے نتیجے میں پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ اِس افواہ کے پھیلنے کے بعد پنجاب کے مختلف شہروں میں پیٹرول کی قلت پیدا ہونا شروع ہو گئی۔
یاد رہے کہ چند دِن پہلے بھی ایسا ہی بحران سامنےآیا تھا جس کے باعث حکومت نے یکم فروری کی بجائے تین روز قبل پیٹرول کی قیمتیں بڑھانےکا اعلان کردیا تھا۔
حکومت نے حال ہی میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں یکمشت 35 روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا تھا۔ آئندہ آںے والے دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد پاکستان کو امید ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ معطل ہونے والے مالیاتی پروگرام کو بحال کر لے گا۔آئی ایم ایف نے پاکستان کو ٹیکس ریونیو ہدف میں اضافے کا کہا تھا۔امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ٹیکس ہدف بڑھانے کے لیے حکومت پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی قیمت میں اضافہ کر سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آئل مارکیٹنگ کمپنیاں تیل کی ذخیرہ اندوزی کر لیں تو اُن کی آمدن میں بڑا اضافہ ہوتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں حکومت کو موثر کارروائیاں کرنا ہوں گی بصورتِ دیگر پیٹرول کی جاری قلت بحران میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
ذمے دار کون؟
پاکستان میں پیٹرول پمپ مالکان کی ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اطلاعات خواجہ عاطف احمد آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو تیل کی موجودہ قلت کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ اُن کے بقول، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے تیل کی سپلائی روک رکھی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات چل رہے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف وفد کی واپس روانگی سے قبل تیل کی قیمتوں میں اضافے کی یقین دہانی کرائے گی۔
خواجہ عاطف احمد کے بقول سرکاری آئل مارکیٹینگ کمپنی پی ایس او کے علاوہ دیگر تمام نجی آئل مارکیٹینگ کمپنیوں نے پیٹرول کی سپلائی روک دی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے پاس پیٹرول پمپ مالکان کے کم وبیش ایک ارب روپے پیشگی جمع ہیں لیکن کمپنیاں پمپس کی طلب کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات فراہم نہیں کر رہی ہیں۔
انہوں نے کا کہ حالیہ معاشی بحران سے قبل جب معشیت کا پہیہ پوری طرح چل رہا تھا تو ملک بھر میں پیٹرول، ڈیزل، مٹی کے تیل سمیت پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت ساڑھے چار لاکھ لیٹر روزانہ سے پانچ لاکھ لیٹر روزانہ کے حساب سے تھی۔ لیکن گزشتہ چند ماہ کے دوران یہ تین لاکھ لیٹر سے ساڑھے تین لاکھ لیٹر یومیہ پر آ گئی۔ جب کہ حالیہ دنوں میں تیل کی کھپت مزید کم ہوچکی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں آئل ریفائنریز، آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اور پیڑول پمپ مالکان پیٹرولیم انڈسٹری کے تین بنیادی فریق ہیں۔
’بیس دن کا پیٹرول ہے‘
آئل مارکیٹنگ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین طارق وزیر علی نے پٹرولیم مصنوعات کی رسد کی موجودہ صورتحال پر لاہور میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ ملک میں33 آئل مارکیٹنگ کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ تمام کمپنیوں کے پاس 20 دن کا اسٹاک موجود ہے۔ بہت کم پٹرول پمپ ایسے ہیں جہاں معمول سے کم پیٹرول دستیاب ہے جب کہ باقی سب پر وافر مقدار دست یاب ہے۔
چیئرمین کا کہنا تھا کہ جو پٹرول پمپس کم پیٹرول دے رہے ہیں حکومت ان کے خلاف کارروائی کرے۔ ہم ایسے پیٹرول پمپس کی حمایت نہیں کریں گے۔ اُن کہنا تھا کہ ملک میں 20 دن کا ذخیرہ موجود ہے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ نہیں ہورہا۔
حکومت کی تنبیہ
وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے پیٹرولیم مصنوعات ذخیرہ کر کے مصنوعی بحران پیدا کرنے والوں کو سختی سے تنبیہ کی ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا پیٹرولیم مصنوعات کی قلت ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہے۔ وہ ذخیرہ اندوزوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ ایسا نہ کریں بصورتِ دیگر سخت نتائج بھگتنا ہوں گے۔
اُنہوں نے خبردار کیا کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والے پیٹرول پمپس کا لائسنس منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
وزیرِ مملکت برائے پیٹرولیم کا کہنا تھا کہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی کوئی قلت نہیں ہے۔ ملک میں 20دنوں کا پیٹرول اور 29 دنوں کا ڈیزل موجود ہے۔
پیٹرول پمپ مالکان ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اطلاعات خواجہ عاطف احمد مصدق ملک کی تنبیہ کو الزام قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ گزشتہ ایک ماہ سے کم سپلائی کا سامنا ہے۔ لیکن مصدق ملک ڈیلرز کو مورودِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
پیٹرول پمپ مالکان ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اطلاعات خواجہ عاطف احمد کا کہنا ہے کہ کچھ ایسے لوگ اُن کی تنظیم میں ہو سکتے ہیں جو جان بوجھ کر تیل کو فروخت نہ کر رہے ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ابھی تک جن ڈیلروں کے خلاف کارروائی کی ہے ان کے پاس 15 سے 20 ہزار لیٹر پیٹرول برآمد ہوا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اوسطاً ایک پیٹرول پمپ پر30 سے 40 ہزار اور بڑے پیٹرول پمپ پر50ہزار لیٹر تک پیٹرول ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ضلع انتظامیہ وقتاً فوقتا پیڑول پمپ پر ایندھن کے ذخیرے کی جانچ پڑتال بھی کرتی رہتی ہے۔ اگر کسی کے پاس 15 سے 20 ہزار لیٹر پیٹرول رکھا ہے تو اُسے ذخیرہ اندوزی نہیں کہا جا سکتا۔
خواجہ عاطف کا کہنا تھا کہ اگر کسی پمپ سے 15 ، 20 ہزار لیٹر سے زائد ایندھن برآمد ہوتا ہے تو ان کی تنظیم ایسے ایسے ڈیلروں کا ساتھ نہیں دے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ عوام کو گمراہ کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جگہ صارف نے پیٹرول نہ ملنے پر پمپ مالک پرگاڑی چڑھا دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نےبعض ڈیلروں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے تو ان کے پاس سے 15سے 20 ہزار لیٹر کے حساب سے تیل برآمد ہو ا ہے۔
پاکستان میں تقریباً 60 فی صد کے قریب پٹرولیم مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں اور پیٹرول کی سپلائی کا نصف سے زائد حصہ پی ایس او درآمد کرتا ہے۔ پی ایس او نے چند دِن قبل کہا تھا کہ وہ ملک بھر میں پیٹرول اور گیس کی بلا تعطل سپلائی کو یقینی بنا رہی ہے اور اس کے درآمدی کارگو منصوبہ بندی کے مطابق پہنچ رہے ہیں۔