بھارت اور چین کے درمیان جون 2020 میں مشرقی لداخ کی گلوان وادی میں پرتشدد ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی سرحدی کشیدگی کے بعد پہلی بار بدھ کے روز بیجنگ میں دونوں ملکوں کے نمائندوں کی دوبدو ملاقات ہوئی جس میں کشیدگی کم کرنے اور سرحدی تنازعے کو حل کرنے کے سلسلے میں تبادلۂ خیال کیا گیا۔
دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی امور پر تبادلۂ خیال کی غرض سے 2012 میں قائم ورکنگ میکینزم فارکنسلٹیشن اینڈ کو آرڈینیشن(ڈبلیو ایم سی سی) کا یہ 26 واں اجلاس تھا۔ اس سے قبل 14 واں دوبدو اجلاس جولائی 2019 میں ہوا تھا جس کے بعد ہونے والے تمام اجلاس ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہوئے تھے۔
اجلاس میں بھارت کے وفد کی قیادت وزارتِ خارجہ اور چینی امور کے انچارج اور جوائنٹ سیکریٹری مشرقی ایشیا شلپک امبولے نے کی جب کہ چین کے وفد کی قیادت وزارتِ خارجہ میں سرحدی اور بحری امور کے ڈائریکٹر جنرل نے کی۔
اس باہمی تبادلۂ خیال میں اگرچہ کوئی فوری پیش رفت سامنے نہیں آئی ۔ لیکن فریقین نے اپنے اپنے مؤقف کا اعادہ کیا۔
مبصرین کے مطابق چوں کہ مذاکرات کی غرض سے بھارت کے اعلیٰ عہدے دار نے چین کا دورہ کیا اور اجلاس چین کے دارالحکومت میں ہوا لہٰذا اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اجلاس کے بعد بھارت حکام کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ فریقین نے مغربی سیکٹر (مشرقی لداخ) میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول(ایل اے سی) کی صورتِ حال کا جائزہ لیا۔
بیان میں کہا گیا کہ ایل اے سی پر باقی ماندہ متنازع علاقوں سے افواج کی واپسی کی تجویز پر کھلے اور تعمیری انداز میں تبادلۂ خیال ہوا جس سے ایل اے سی پر امن و استحکام کے قیام اور فریقین کے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے حالات پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
بھارتی حکام کے مطابق دونوں ممالک نے اس سے اتفاق کیا کہ سرحد پر امن و استحکام کے قیام کے لیے باہمی معاہدوں اور پروٹوکولز کے مطابق سینئر ملٹری کمانڈرز کی سطح پر جلد ہی اجلاس کا انعقاد ہوگا۔
ادھر چین کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین نے ملٹری کمانڈرز کی سطح پر جلد از جلد 18 ویں اجلاس کے انعقاد کے لیے رضا مندی ظاہر کی ہے۔
تاہم اس بیان میں متنازع علاقوں سے افواج کی واپسی کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔البتہ بیان میں صورت حال کو معمول پر لانے کے لیے سرحدی کشیدگی کو کم کرنےذکر کیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سرحدی تنازعے کے سلسلے میں فریقین کے مؤقف میں فرق نظر آتا ہے۔ان کے بقول جہاں بھارت باقی ماندہ دو اختلافی پوائنٹس دیسپانگ اور ڈیمچوک پر پہلے والی صورتِ حال کی بحالی کے حق میں ہے۔ وہیں چین کا مؤقف ہے کہ ان دونوں پوائنٹس کا تعلق موجودہ تعطل سے نہیں ہے۔
واضح رہے کہ جب گزشتہ برس ستمبر میں پیٹرولنگ پوائںٹ 15 سے دونوں ملکوں کی افواج نے واپسی کی تھی تو چین نے دعویٰ کیا تھا کہ سرحدی تعطل ختم ہوگیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایل اے سی کے بارے میں فریقین کی سمجھ میں فرق ہے۔ دونوں الگ الگ مقامات کو ایل اے سی بتاتے ہیں۔
اس وقت سرحد پر دونوں ملکوں کی جانب سے 50، 50 ہزار فوجیوں سمیت ہتھیار اور آلات موجود ہیں۔ دونوں ملکوں کی جانب سے وہاں انفراسٹرکچر کی تعمیر کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں بھارت اس وقت 20 ملکوں کے گروپ جی-20 کی صدارت کر رہا ہے جس کے تحت بھارت میں کئی اجلاس ہونے ہیں۔ ستمبر میں جی-20 کا سربراہ اجلاس اور جون یا جولائی میں شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او) کا اجلاس ہونے والا ہے۔ اس لحاظ سے فریقین کے درمیان ہونے والے اس اجلاس کی کافی اہمیت ہے۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) نئی دہلی میں سینٹر آف چائنیز اینڈ ساؤتھ ایسٹ ایشین اسٹڈیز سے وابستہ پروفیسر بی آر دیپک کا کہنا ہے کہ جی-20 اور ایس سی او کے اجلاس میں تمام رکن ممالک کی شرکت ضروری ہے۔ اگر بھارت اور چین میں کشیدگی باقی رہتی ہے اور چینی صدر ان میں شرکت نہیں کرتے ہیں تو اس کا غلط اثر پڑے گا اور اجلاس کی کامیابی مشکوک ہو جائے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ چین دنیا کی ایک بڑی طاقت ہے اور اس کے ساتھ بھارت کی تجارت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ باہمی تجارت میں بھارت کو کافی خسارہ ہو رہا ہے۔ لہٰذا بھار ت کو چین کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم کرنے ہیں۔
ان کے خیال میں باہمی تجارت کے فروغ سے تعلقات کے استحکام میں مدد ملی ہے۔
ان کے بقول اب دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر آ رہے ہیں۔ چین نے بھارتی طلبہ کو اپنے یہاں آنے کی اجازت دے دی ہے۔ نئے داخلے بھی ہو رہے ہیں۔ چین بھارتی طلبہ کو وظیفے بھی دیتا ہے اور اس نے حال ہی میں اس بارے میں پہل بھی کی ہے۔
ان کے خیال میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ دونوں ملکوں میں سیاسی اور عوامی سطح پر سرگرمیاں مثبت انداز میں بڑھی ہیں۔ ابھی دونوں ملکوں کے درمیان براہِ راست پرواز شروع نہیں ہو سکی ہے تاہم ان کے بقول اس پر بات چیت چل رہی ہے۔ لہٰذا امید کی جانی چاہیے کہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔
بی آر دیپک کے بقول وہ اس خیال سے متفق نہیں کہ بھارت نے جی 20 اور ایس ای او اجلاس کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے مؤقف میں نرمی کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی رہنماؤں کی ملاقاتیں ہوئیں ہیں۔ عہدے داروں نے باہمی دورے بھی کیے ہیں۔ آن لائن کانفرنسز بھی ہوتی رہی ہیں جب کہ بالی میں نریندر مودی اور شی جن پنگ کے درمیان عشائیے کے موقع پر غیر رسمی ملاقات بھی ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں میں رابطہ کاری کے چینلز کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین برس کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان دو درجن سے زائد مرتبہ سفارتی اور فوجی سطح پر مذاکرات ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کی افواج پینگانگ جھیل کے ساحل، گوگرا اور ہاٹ اسپرنگ کے متنازع مقام سے واپس ہوئی ہیں۔ تاہم فریقین دیپسانگ اور ڈیمچوک کے سلسلے میں کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔
واضح رہے کہ جون 2020 میں گلوان وادی میں ہونے والے خونی تصادم میں بھارت کے 20 جوان ہلاک ہوئے تھے۔ بعد ازاں چین نے اپنے چا رجوانوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا تھا۔
دونوں ممالک سرحدی کشیدگی اور گلوان تصادم کے لیے ایک دوسرے کو موردِالزام ٹھہراتے رہے ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کو ایل اے سی کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
مبصرین کے مطابق چین نے دیپسانگ پلین اور چارڈنگ نالہ علاقے میں ان مقامات پر بھارتی افواج کو گشت کرنے سے روک دیا ہے جہاں وہ روایتی طور پر گشت کرتی رہی ہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور فوجی عہدے داروں کی جانب سے ان بیانات کا اعادہ کیا جاتا رہا ہے کہ سرحدی تعطل نے باہمی رشتوں کو متاثر کیا ہے اور جب تک تعطل ختم نہیں ہوتا رشتے معمول پر نہیں آسکتے۔