|
اسرائیل کو جنگ سے تباہ حال غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کے لیے ایک اسکول کی پناہ گاہ میں 18 افراد کی ہلاکت کے بعدجمعرات کو بین الاقوامی مذمت کا سامنا ہے، جبکہ اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے حماس کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا۔
بدھ کو ہونے والے حملے میں نصیرات میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام الجوانی اسکول کا ایک حصہ تباہ ہوکر کنکریٹ کا ڈھیر بن گیا۔
غزہ کے شہری دفاع کے ترجمان محمود بسال نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے ٹیلی گرام پر لکھا، "پانچویں بار، اسرائیلی فورسز نے UNRWA کے زیر انتظام الجوانی اسکول پر بمباری کی، جس میں 18 شہری ہلاک ہوئے۔"
فلسطینی پناہ گزینوں کی اقوام متحدہ کی ایجنسی نے بعد میں کہا کہ اسکول اور اس کے گردونواح پر دو اسرائیلی حملوں میں اس کےعملے کے چھے اہل کارمار ےگئے، جو کسی ایک واقعے میں اس کی ٹیم کی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔
"ہلاک ہونے والوں میں UNRWA کی پناہ گاہ کے مینیجر اور بے گھر لوگوں کو امداد فراہم کرنے والی ٹیم کے دیگر ارکان بھی شامل تھے،" اس نے X پر کہا، "اسکولوں اور دیگر شہری انفراسٹرکچر کو ہمیشہ محفوظ رکھا جانا چاہیے، وہ کوئی ہدف نہیں ہیں۔"
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے اسکول کے میدان میں حماس کے عسکریت پسندوں پر ایک " ٹھیک نشانے والا حملہ" کیا تھا۔ اس نے نتائج کی وضاحت نہیں کی، لیکن کہا کہ شہریوں کے لیے رسک کم کرنے کے لیے "متعدد اقدامات" کیے گئے تھے۔
اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس س نے اس حملے کو "مکمل طور پر ناقابل قبول" قرار دیا۔
ان کی مذمت کا اعادہ اسرائیل کے اتحادی جرمنی نے بھی کیا جس نے کہا کہ "انسانی امداد کے کارکنوں کو کبھی بھی راکٹوں کا شکار نہیں بننا چاہیے"۔
یورپی یونین کی برہمی
اردن اور یورپی یونین نے بھی اس حملے پر تنقید کی، جبکہ اسرائیل کے اہم اتحادی امریکہ نے اس سے انسانی ہمدردی کے مقامات کی حفاظت کا مطالبہ کیا۔
یوروپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ بوریل نے کہا کہ وہ ہلاکتوں پر برہم ہیں اور یہ کہ حملے بین الاقوامی انسانی قانون کے "بنیادی اصولوں کی بے توقیری کے مظہر ہیں۔"
امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے کہا: "ہمیں انسانی ہمدردی کے مقامات کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے، اوراس چیز کو ہم اسرائیل کے ساتھ اٹھاتے رہتے ہیں"۔
اسرائیلی فوج کیا کہتی ہے؟
اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل نداو شوشانی نے کہا کہ UNRWA نے بار بار کی درخواستوں کے باوجود اپنے ہلاک ہونے والے کارکنوں کے نام فراہم نہیں کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک فوجی انکوائری سے پتہ چلا ہے کہ میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس پر سامنے آنے والے (مرنے والوں کے) ناموں کی ایک بڑی تعداد حماس کے دہشت گرد کارکنوں کی ہے۔"
فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی کیا کہتی ہے؟
اس کے جواب میں فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی کی ترجمان جولیٹ ٹوما نے کہا کہ ایجنسی "ایسی کسی درخواست سے آگاہ نہیں ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ ایجنسی اسرائیل کو ہر سال اپنے عملے کی فہرست فراہم کرتی ہے اور یہ کہ اس نے اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسندوں سے "بار بار کہا ہے کہ وہ کبھی بھی فوجی یا جنگی مقاصد کے لیےشہری تنصیبات کا استعمال نہ کریں۔"
انہوں نے کہا کہ ایجنسی"اس بات کا تعین کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ آیا اسکول کو حماس نے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا، لیکن UNRWA نے ان انتہائی سنگین دعوؤں کی بار بار آزاد تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے"۔
اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر نے کہا کہ اسکول اب اسکول نہیں رہا اور "ایک جائز ہدف" بن گیا ہے کیونکہ اسے حماس حملوں کے لیے استعمال کرتی تھی۔
فلسطینی پناہ گزینوں کی اقوام متحدہ کی ایجنسی جو غزہ کے لیے تقریباً تمام امداد کو مربوط کرتی ہے، اس وقت سے بحران کا شکار ہے جب اسرائیل نے اس کے 30 ہزار اہل کاروں میں سے ایک درجن پر 7 اکتوبر کو حماس کے ان حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جس نے جنگ کو جنم دیا تھا۔
اقوام متحدہ نے فوری طور پر ملوث عملے کے ارکان کو برطرف کردیاتھا، اور اس کی تحقیقات میں "غیرجانبداری سے متعلق کچھ مسائل" پائے گئے تھے لیکن اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل نے اپنے اہم الزامات کے ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔
'جہنم سے گزرنا'
حملے سے بچ جانے والوں نے ملبے سے لاشیں اور سامان نکالنے والوں بنے کہا کہ انہیں جسموں کے ٹکڑوں پر سے گزرنا پڑا۔
انسانی باقیات پر مشتمل پلاسٹک بیگ تھامے ایک شخص نے اے ایف پی کو بتایا، "میں بمشکل کھڑا ہو سکتا ہوں۔"
انہوں نے کہا"ہم اب 340 دن سے جہنم سے گزر رہے ہیں، جو کچھ ہم نے ان دنوں میں دیکھا ہے، ہم نے اسے ہالی ووڈ کی فلموں میں بھی نہیں دیکھاتھا، اب ہم اسے غزہ میں دیکھ رہے ہیں۔"
فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی کے سربراہ فلپ لازارینی نے اسکول پر حملے کے بعد کہا کہ ایجنسی کے عملے کے کم از کم 220 ارکان جنگ میں مارے گئے ہیں۔
"ہر روز ہلاکتوں کا لایعنی ختم ہونے والا سلسلہ۔" انہوں نے X پر پوسٹ کیا۔
بقول انکے"جنگ کے آغاز سے ہی انسانی ہمدردی کے عملے، تنصیبات اور آپریشنز کو صریحأ اور بلا روک ٹوک نظرانداز کیا گیا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں، بہت سے اسکولوں کی عمارتوں کو بے گھر خاندانوں کو پناہ دینے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، جہاں اس علاقے کے 24 لاکھ افراد کی اکثریت جنگ کی وجہ سے بار بار در بدر ہوئی ہے۔
جنگ بندی میں کوئی پیش رفت نہیں
غزہ شہر میں شہری دفاع کے ترجمان باسل نے کہا کہ زیتون کے محلے میں دو حملوں میں دو بچوں سمیت سات افراد ہلاک ہوئے۔
بعد میں، انہوں نے کہا کہ جبالیہ کیمپ میں دو افراد مارے گئے۔ طبی ذرائع نے بتایا کہ خان یونس کے علاقے میں ہونے والے حملوں میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی میں کئی مہینوں سے جاری جنگ بندی کے مذاکرات کے باوجود خونریزی میں کمی کے آثار نظر نہیں آتے۔
فلسطینی عسکریت پسندگروپ حماس کے ایک وفد نے بدھ کے روز دوحہ میں قطری اور مصری ثالثوں سے ملاقات کی۔
غزہ پر اسرائیل کا فوجی حملہ جو،سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے دہشت گردحملوں سے شروع ہوا، 11 ماہ تک پھیل گیا ہے اور جنگ بندی کے حالیہ مذاکرات کسی پیش رفت تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں جب کہ مغربی کنارے میں تشدد بلندی کی نئی حد تک پہنچ چکا ہے ۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، جنگ میں 40,900 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جنگ کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور غزہ کی 23 لاکھ آبادی کا تقریباً 90 فیصد بے گھر ہو گیا ہے اور اکثر کئی بار بے گھر ہوا ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم