امریکی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی ’سی آئی اے‘ کے سربراہ جان برینن نے کہا ہے کہ داعش پوری طرح سے مسلح اور مالی طور پر مستحکم ہے، لیکن ناقبل شکست نہیں۔
نیویارک میں ’کونسل آف فارن ریلشنز‘ سے خطاب میں ’سی آئی اے‘ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انتہا پسند منظم اور سخت جان جنگجو ہیں، راتوں رات انھیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن اُن کے بقول امریکی قیادت میں اتحادی ممالک کے فضائی حملوں نے ان کی قوت کو کم کیا ہے اور اس بات کے واضح شواہد ملے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ متاثر ہوا ہے۔ انھیں جو نقصان پہنچایا گیا ہے اس کی وجہ سے عراق اور شام میں کامیابیوں کی اہلیت کے حوالے سے ان کے امیج کو دھچکا لگا ہے۔ ان میں گروہ بندی بھی سامنے آئی ہے، کنڑول قائم رکھنے اور انتظامی معاملات چلانے کے لئے ضروری وسائل کی کمی واقع ہوئی ہے۔
عراق میں سرکاری فوجوں نے بڑے پیمانے پر تکریت واپس لینے کے لئے جارحانہ کارروائی کرکے انھیں دبا دیا ہے، جس کی وجہ سے وہ زمینی قبضہ کھوتے جا رہے ہیں۔
تیس ہزار عراقی فوجی اور ایرانی حمایت یافتہ شعیہ ملیشیا پورے شہر کو گھیرے میں لے لیا اور بہت سے علاقے کو بند کردیا ہے۔ لیکن، داعش کے گھات لگا کر حملہ کرنے والے اور زمین میں چھپے بارودی سرنگ ان کی رفتار کو سست کررہے ہیں۔ ایک خودکش حملے میں جمعہ کو چھ عراقی فوجیوں کے مارے جانے کی بھی اطلاع ہے۔
تکریت سابق آمر صدام حسین کا آبائی شہر ہے جو کہ بغداد سے صرف 140 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جس کی جنگی حکمت عملی کے تحت بڑی اہمیت ہے۔
اس دوران ترکی نے 16 انڈونیشین باشندوں کی گرفتاری کااعلان کیا ہے جس میں سے اکثر بچے ہیں جو دولت اسلامیہ میں شامل ہونے کے لئے شام کی سرحد عبور کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ وزیر خارجہ میولوت کاسگولو کہتے ہیں کہ سیکورٹی فورسز ان کے مزید ان 16 ساتھیوں کی تلاش میں ہے جو ترکی میں کہیں چھپے بیٹھے ہیں۔
ترکی کے وزیر خارجہ نے اپنے ملک میں گرفتار ایک شخص کے بارے میں بھی بیان دیا ہے کہ جو تین برطانوی لڑکیوں کے ترکی کے راستے شام جانے میں ان کی مدد کر رہا تھا۔ یہ شخص شام کا شہری ہے جو امریکی قیادت میں قائم اتحادی ممالک میں سے ایک ملک کی انٹلی جنس ایجنسی کے لئے کام کررہا تھا۔ لیکن، ترکی نے اس ملک کا نام نہیں لیا۔