رسائی کے لنکس

بھارتیہ جنتا پارٹی کی مغربی بنگال میں 12 گھنٹوں کی ہڑتال، معمولاتِ زندگی متاثر


  • بی جے پی نے ٹرینی خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے کے خلاف احتجاج پر پولیس تشدد کے خلاف 12 گھنٹوں کی ہڑتال کی کال دی تھی۔
  • ہڑتال کے دوران ہنگامہ آرائی کے الزام میں 200 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔
  • مغربی بنگال میں بعض مقامات پر معمولاتِ زندگی متاثر بھی ہوئے۔
  • بی جے پی کارکنوں نے ہڑتال کے دوران مختلف مقامات پر سڑک اور ریل کے راستے بلاک کیے۔

نئی دہلی—بھارت کی مشرقی ریاست مغربی بنگال میں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کی بدھ کو صبح چھ بجے سے شام چھ بجے تک 12 گھنٹے کی ہڑتال کی کال دی گئی جس کا ریاست میں ملا جلا اثر رہا۔

مغربی بنگال میں بعض مقامات پر معمولاتِ زندگی متاثر بھی ہوئے جب کہ ہڑتال کے دوران ہنگامہ آرائی کے الزام میں 200 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔

رپورٹس کے مطابق بی جے پی کے ایک رہنما پریانشو پانڈے کو فائرنگ میں گولی بھی لگی ہے۔

انھوں نے الزام لگایا ہے کہ وہ بھات پارا نامی علاقے میں کار میں سفر کر رہے تھے کہ ’ترنمول کانگریس‘ (ٹی ایم سی) کے کارکنوں نے ان پر فائرنگ کی جب کہ انہوں نے بم پھینکے جانے کا بھی الزام لگایا ہے۔

ٹی ایم سی نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ تاہم اس الزام کے بعد آٹھ نامعلوم افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے جائے واردات سے خالی شیل برآمد کیے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق متعدد مقامات پر بی جے پی کارکنوں اور پولیس میں تصادم ہوا۔ سابق راجیہ سبھا رکن روپا گانگولی اور رکنِ اسمبلی اگنی مترا پال سمیت متعدد بی جے پی رہنماؤں کو بھی ریل کی پٹری اور سڑک کو بلاک کرنے کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا۔

بی جے پی نے کلکتہ میں ایک ٹرینی خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے کے خلاف منگل کو طلبہ کی ایک تنظیم ’پشچم بنگا چھاترا سماج‘ اور دیگر تنظیموں کی جانب سے سکریٹریٹ تک مارچ کے دوران پولیس ایکشن کے خلاف 12 گھنٹے کی ہڑتال کی کال دی تھی۔

مظاہرین وزیرِ اعلیٰ ممتا بنرجی کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

مارچ کے دوران پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی۔ اس دوران اس نے آنسو گیس کے گولے داغے اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔

پولیس نے سکریٹریٹ کے اطراف مارچ کو ناکام بنانے کے لیے چھ ہزار اہلکار تعینات کیے تھے۔

کلکتہ کے آر جی کر میڈیکل کالج اینڈ اسپتال میں نو اگست کی رات میں ایک 31 سالہ خاتون ٹرینی ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی اور قتل کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے خلاف ڈاکٹروں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے پورے ملک میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ملک کی اعلیٰ تحقیقاتی ایجنسی ’سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن‘ (سی بی آئی) اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے جب کہ کلکتہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی اس معاملے پر سماعت ہو رہی ہے۔

اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق بی جے پی کارکنوں نے ہڑتال کے دوران مختلف مقامات پر صبح سے ہی سڑک اور ریل کے راستے بلاک کر دیے تھے۔ مرشد آباد، بہرام پورہ، سنگور اور برک پور سمیت دو درجن سے زائد مقامات پر ٹرینوں کی آمد و رفت متاثر رہی۔

نارتھ اینڈ ساؤتھ 24 پرگنہ علاقوں میں کئی مقامات پر ریلوے اسٹیشنوں پر مظاہرے کیے گئے۔

ایسٹرن ریلوے کے ایک عہدے دار نے میڈیا کو بتایا کہ ہڑتال کے حامیوں نے کم از کم 50 مقامات پر ریل کی پٹریوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں۔

رپورٹس کے مطابق برک پور اسٹیشن پر اور بعض دیگر مقامات پر اس وقت کشیدگی پیدا ہو گئی جب بی جے پی اور ٹی ایم سی کارکن ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ تاہم ان کو الگ کیا گیا۔

بیر بھوم، مالدہ اور نندی گرام سمیت متعدد مقامات پر سڑکوں کو بلاک کیا گیا جب پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی تو پولیس کے ساتھ ان کی جھڑپ ہوئی۔

بی جے پی اور ٹی ایم سی کے کارکنوں میں بھی بعض مقامات پر تصادم ہوئے ہیں۔ نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔

ہڑتال کے دوران مختلف مقامات پر بازار بند رہے۔ سڑکوں پر ٹریفک کم نظر آئی اور لوگ بھی باہر کم نکلے۔

کلکتہ میں بسیں، ٹیکسی اور آٹو رکشا بہت کم تعداد میں شاہراہوں پر نکلے۔ پرائیویٹ گاڑیاں بھی کم دکھائی دیں۔

حکومت کی جانب سے ہڑتال کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔ اسکول اور کالج کھلے رہے۔ لیکن ان میں حاضری بہت کم رہی۔ بیشتر نجی دفاتر کے ملازموں کو گھر سے آن لائن کام کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

بی جے پی کا الزام ہے کہ پولیس بہت سے پارٹی کارکنوں کو بسوں میں بھر کر لے گئی ہے۔

ملک کی صدر دروپدی مورمو نے ٹرینی ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے پر پہلی بار ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعے کی مذمت کی اور مایوسی کا اظہار کیا۔

انھوں نے خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب بہت ہو چکا۔ خواتین کے خلاف ایسے گھناونے جرائم کو روکنے کے لیے معاشرے کی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ مہذب معاشرے میں بہن بیٹیوں کے ساتھ اس قسم کی حرکت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

ادھر مغربی بنگال کی وزیرِ اعلی ممتا بنرجی نے الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی بغیر کسی وجہ کے ان کی توہین کر رہی ہے۔

انھوں نے ہڑتال کے دوران بی جے پی کارکنوں پر پولیس پر حملوں کا الزام لگایا۔

انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت اسمبلی میں ریپ مخالف بل پیش کرکے اسے منظور کرائے گی جس میں ایسے جرم کے لیے سزائے موت کا انتظام ہوگا۔

ان کے بقول اگلے ہفتے اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کرکے یہ قانون منظور کیا جائے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہم اس بل کو گورنر کے پاس منظوری کے لیے بھیجیں گے۔ اگر انھوں نے اسے منظور نہیں کیا تو ہم گورنر ہاؤس کے باہر دھرنے پر بیٹھیں گے۔ یہ بل ہر حال میں منظور کیا جانا چاہیے۔ گورنر اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے۔

’ری کلیم دا نائٹ‘ : کلکتہ میں خواتین رات کا ڈر توڑنے باہر نکل آئیں
please wait

No media source currently available

0:00 0:11:14 0:00

خیال رہے کہ مختلف معاملات میں وزیرِ اعلیٰ اور گورنر کے درمیان شدید اختلافات دیکھے گئے ہیں۔

ادھر کوئی بھی وکیل ملزم سنجے رائے کا کیس لڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

بھارتی قوانین کے مطابق صاف ستھرے ٹرائل کے لیے ملزموں کو عدالت میں اپنا کیس میں وکیل فراہم کیے جاتے ہیں۔

ایک خاتون وکیل کویتا سرکار کو جو کہ سیالدہ کورٹ میں وکالت کرتی ہیں اور ’اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی‘ کی رکن ہیں، ملزم کے دفاع کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔

ملزم کی وکیل مقرر کیے جانے کے بعد انھوں نے اس سے ملاقات کی اور اسے بتایا کہ اس کا پولی گراف ٹیسٹ یعنی لائی ڈٹیکٹر ٹیسٹ کیا جائے گا تاکہ اگر وہ جھوٹ بولے تو اس کا پتا لگایا جا سکے۔ اس کے بعد ملزم نے اس ٹیسٹ کے لیے آمادگی ظاہر کی۔

کویتا سرکار نے نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹوڈے‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ ملزم کو انصاف ملے۔ لیکن یہ انصاف قانونی کارروائی کے بعد ہو نہ کہ اس سے پہلے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG