بیجنگ کے حمایت یافتہ الیکشن کمیٹی نے 99 فی صد ووٹوں کے ساتھ جان لی کو ہانگ کانگ کا نیا رہنما منتخب کر لیا ہے۔
اتوار کو خفیہ بیلٹ کے ذریعےمنعقد ہونے والے چیف ایگزیکٹو الیکشن کے دوران جان لی کو 1500 میں سے 1416 ووٹ ملے۔
اس انتخاب میں واحد امیدوار ہونے کے علاوہ بیجنگ کی حمایت اور الیکشن کمیٹی کی طرف سے 786 نامزدگیوں کی وجہ سے امید کی جا رہی تھی کہ جان لی یہ انتخاب آسانی سے جیت لیں گے۔
جان لی رواں سال یکم جولائی سے موجودہ لیڈر کیری لام کی جگہ عہدہ سنبھالیں گے۔
کیری لام نے جان لی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ وہ انتخابات کے نتائج بیجنگ کو ارسال کریں گی۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت پرامن انتقال اقتدار کو ممکن بنائے گی۔
ان کے بقول نئی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے لیے ہر ممکن حمایت فراہم کی جائے گی۔
گزشتہ برس متعارف ہونے والی انتخابی اصلاحات کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ہانگ کانگ میں انتخاب منعقد ہوا ہے۔
ان انتخابی اصلاحات میں اس بات کو ممکن بنایا گیا تھا کہ صرف ایسے امیدوار ہی انتخاب میں حصہ لے سکیں جو بیجنگ سے وفادار ہوں اور حب الوطن ہوں۔
مقننہ میں بھی اس بات کی طرف توجہ دی گئی تھی کہ تمام اختلافی آوازیں دبائی جا سکیں۔
چین کی اسٹیٹ کونسل کی مین لینڈ چائنا ہانگ کانگ اینڈ مکاؤ افیئرز آفس نے بھی جان لی کو ان کی کامیابی پر مبارک باد دی۔
آفس نے ایک بیان میں کہا کہ اس کامیاب انتخاب سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں متعارف کرائے جانے والی انتخابی اصلاحات مؤثر ہیں اور یہ ہانگ کانگ پر حکومت کے لیے موجود ’ایک ملک، دو نظام‘ کے فریم ورک پر بھی پورا اترتی ہیں۔
برطانوی حکومت نے ہانگ کانگ کے انتظامات 1997 میں چین کے حوالے کیے تھے جس میں ’ایک ملک، دو نظام‘ کا فریم ورک کارفرما تھا۔
اس فریم ورک کا مقصد چین کے برعکس ہانگ کانگ کی سیاسی آزادیوں، جن میں آزادیٴ اظہار اور احتجاج کا حق شامل ہیں، کو محفوظ بنایا گیا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں چین کے اس سابقہ برطانوی نوآبادی پر اپنے کنٹرول کو مضبوط کرنے کے بعد سے یہ آزادیاں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔