کراچی میں جمعرات کو وفات پانے والے قوم پرست بزرگ سیاست دان سردار عطاء اللّٰہ مینگل کو بلوچستان کے ضلع خضدار میں جمعے کو سپردِ خاک کیا جائے گا۔
مینگل قبیلے کے سردار، سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان صوبے کے پہلے وزیرِ اعلیٰ تھے جنہوں نے اپنی اصول پرستی کی وجہ سے کئی صعوبتیں جھیلیں۔
پاکستان کے قیام کے 23 برس بعد بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملا تھا۔ 1970 کے عام انتخابات اور ون یونٹ کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ صوبے میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی حکومت قائم ہوئی تو سردار عطاء اللّٰہ مینگل کو وزیرِ اعلیٰ منتخب کیا گیا جب کہ میر غوث بخش بزنجو صوبے کے گورنر تھے۔
بلوچستان میں صوبائی حکومت کے قیام کے بعد شروع سے ہی مرکز میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی اور نیپ کی حکومت کے درمیان نہ بنی جس کی وجہ سے سیاسی، انتظامی معاملات اور اختیارات پر تنازع شدت اختیار کرتا چلا گیا۔
وزیرِ اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل نے غیر مقامی ملازمین کو بلوچستان سے نکالا تو دوسری جانب انہوں نے کوسٹ گارڈز کو بلوچستان کی ساحلی پٹی پر گشت کی اجازت دینے سے بھی انکار کیا۔
اسی دوران عراق کے سفارت خانے سے اسلحہ ملنے کے بعد وفاقی حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ اسلحہ درحقیقت بلوچستان میں شورش کو ہوا دینے کے لیے لایا گیا تھا جسے بنیاد بنا کر نیپ کی صوبائی حکومت محض نو ماہ بعد ہی تحلیل کر دی گئی تھی۔
مصنف رمضان بلوچ کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر سردار عطاء اللہ مینگل اور ان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کی سیاست قوم پرستی اور بائیں بازو کی سیاست کرتی تھی اور ان کی سیاست کی بنیاد بلوچستان ہی تھا جب کہ یہ اسی بنیاد پر حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوئے تھے۔
ان کے بقول بدقسمتی سے پاکستان پیپلز پارٹی اور نیپ کے درمیان سیاسی کشمکش کا نقصان صوبے اور مرکز دونوں ہی کو پہنچا۔
رمضان بلوچ کا کہنا ہے کہ آئین سازی کا مشکل مرحلہ تمام جماعتوں اور رہنماؤں نے مل کر طے کیا تھا جس میں بلوچستان سے بھی لوگ شامل تھے لیکن بعد کے حالات میں چیزیں یکسر تبدیل ہوگئیں۔
انہوں نے بتایا کہ مرکز اور صوبہ بلوچستان کی حکومت کے اختلافات صرف حکومت کی تحلیل پر ہی ختم نہیں ہوئے بلکہ اس کے بعد کے حالات خاص طورپر گورنر سرحد حیات محمد خان شیرپاؤ کے قتل کے بعد نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی گئی تھی اور نیپ کی ساری قیادت بشمول سردار عطاء اللہ مینگل کئی سال تک حیدرآباد جیل میں نظر بند رہے۔
مصنف رمضان بلوچ کے مطابق نیپ کی قیادت کے خلاف چلایا جانے والا مقدمہ 'حیدرآباد سازش' کے نام سے مشہور ہوا جو فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے پر ہی ختم ہو سکا جس کے بعد انہیں رہائی ملی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ جیل سے نکلنے کے بعد بھی سابقہ نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت اکھٹی نہ رہ سکی اور ان میں اختلافات کی خلیج بڑھتی رہی جس کا نقصان ایک بار پھر صوبے اور مرکز کو ہی ہوا کیوں کہ وہ واحد جماعت تھی جو بلوچستان کا صوبائی مینڈیٹ رکھنے کے ساتھ قومی سطح کی جماعت تھی۔
رمضان بلوچ کے مطابق سردار عطاء اللہ مینگل کو اس بات کا بے حد دکھ تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اس کے بعد کچھ عرصے کے لیے بیرونِ ملک گوشہ نشین ہو گئے جہاں سے ان کی واپسی 1996 میں ہوئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ واپسی پر سردار عطاء اللہ مینگل ایک بار پھر سیاسی میدان میں فعال ہوئے اور انہوں نے بلوچستان نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی اور صرف ایک برس بعد ہی 1997 کے عام انتخابات میں ان کی جماعت نے بلوچستان میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت قائم کی تھی جس میں وزارتِ اعلیٰ اس بار سردار کے بیٹے سردار اختر مینگل کو ملی۔
مصنف رمضان بلوچ نے بتایا کہ آہستہ آہستہ سردار عطاء اللہ مینگل نے سیاست اور جماعت میں اپنی جگہ صاحب زادے کو دے دی اور پھر وہ سیاست میں کافی عرصے فعال نہیں رہے بلکہ پسِ منظر میں پارٹی کی رہنمائی کرتے رہے۔
ان کے مطابق تمام حقائق کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سردار عطاء اللہ مینگل ایک بڑے رہنما اور سیاسی آدمی تھے اور سیاست ہی کے ذریعے مسائل کو حل کرنے پر بھی یقین رکھتے تھے۔
رمضان بلوچ کا کہنا ہے کہ سردار عطاء اللہ مینگل ایک اعلیٰ مقرر ہونے کے ساتھ لوگوں کو قائل کرنے کی زبردست طاقت رکھتے تھے اور یہی طاقت انہیں ایک بڑے سیاسی رہنما کے طور پر سامنے لائی جس کے پیچھے عوامی حمایت تھی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بعض اوقات وہ جذبات میں بھی آجاتے تھے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی طور پر وہ ایک بڑے منجھے ہوئے رہنما تھے۔
'بلوچ قیادت کو پہلی بار اقتدار ملا'
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار کی سردار عطاء اللہ مینگل سے درجنوں ملاقاتیں رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سردار بطور وزیراعلیٰ انتظامی طور پر کافی سخت گیر ثابت ہوئے۔ ان کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں بلوچ قیادت کو پہلی بار اقتدار ملا تھا۔
شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ایک جانب سردار عطاء اللہ مینگل کی وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے نہ بن پائی اور دوسری طرف صوبائی حقوق اور خود مختاری کی بات کرنے پر ان کی حکومت کئی الزامات کی زد میں بھی رہی۔
انہوں نے کہا کہ ایک بات طے ہے کہ سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت چند ماہ میں برخاست کیے جانے کے باوجود بھی وہ کبھی اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے۔ وہ ایک بڑے سیاست دان ہونے کے ساتھ قبائلی سردار اور قوم پرست بھی تھے۔
ان کے بقول سردار عطاء اللہ مینگل کبھی لگی لپٹی بات نہیں کرتے تھے اور اپنے لہجے میں سخت گیر رویہ بھی رکھتے تھے۔ سیاست میں جمہوریت کے قائل ہونے کے ساتھ ان کی شخصیت میں سرداری کا رنگ بھی نمایاں تھا۔ ساری عمر انہوں نے قوم پرستی کی سیاست کی۔
'بلوچستان کے نوجوانوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں بچا'
شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ سردار عطاء اللہ مینگل نے ایک عرصے تک سیاست میں نمایاں رہنے کے بعد پسِ منظر میں چلے جانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس بلوچستان کے نوجوانوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں بچا۔
ان کے بقول ظاہر ہے جب بلوچوں کو اقلیت سمجھ کر ان کے حقوق غضب کیے جائیں تو پھر انہوں نے پہاڑوں میں جا کر مسلح جدوجہد ہی شروع کرنا تھی۔ اور ان میں پڑھے لکھے نوجوان شامل ہو چکے ہیں اور ایسے میں اُن (سردار عطاء اللہ مینگل) کی بات کون سنے گا؟
شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس مقصد کے لیے پاکستان میں مبینہ طور پر استحصال کا شکار قومیتوں کے لیے ایک پلیٹ فارم 'پونم' کی بھی تشکیل دی تھی لیکن وہ بھی زیادہ عرصے نہ چل سکا۔
جبری گمشدہ کر کے قتل کیے جانے والے پہلے بلوچ
سردار عطاء اللہ مینگل کے چار بیٹے ہیں جن میں اختر مینگل کے علاوہ اسد مینگل، منیر مینگل اور جاوید مینگل شامل ہیں۔
اسد مینگل سردار کے بڑے صاحبزادے تھے جنہیں ان کے ساتھی احمد شاہ کُرد کے ساتھ پیپلز پارٹی کے اولین دورِ حکومت میں لاپتا کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جبری گمشدگی کے بعد قتل کیے جانے والے یہ پہلے بلوچ تھے جن کے بارے میں آج تک ان کے خاندان کو نہیں بتایا گیا کہ قتل کے بعد انہیں کہاں دفنایا گیا۔
تاہم ذوالفقار علی بھٹو اپنی کتاب 'افواہ اور حقیقت' میں اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ انہیں وزیرِ اعظم ہونے کے باوجود اس کا کوئی علم نہیں تھا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات اور رکنِ قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ کا سردار عطاء اللہ مینگل سے کئی دہائیوں پرانا تعلق رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سردار کو جب معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے کو قتل کر دیا گیا ہے تو لوگ ان سے تعزیت کرنے اور فاتحہ خوانی کے لیے آئے لیکن آغا حسن بلوچ کے مطابق، انہوں نے تعزیت لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میرے بیٹے جیسے بہت سے بلوچوں کے بچے ریاستی آپریشن میں مارے گئے ہیں ایسے میں، میں صرف اپنے بیٹے کی تعزیت کیسے قبول کر لوں۔ انہوں نے کبھی اپنی ذات پر آنے والے غموں کی پرواہ نہیں کی۔
آغا حسن کے مطابق سردار عطاء اللہ مینگل شفیق انسان تھے جو اپنی ذات میں ایک ادارے کی مانند تھے۔ جنہوں نے ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی اور بلوچستان کے عوام، ان کے حقوق اور ملکی آئین کے اندر رہتے ہوئے صوبائی خود مختاری کی بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ سردار عطاء اللہ مینگل خود سرداری نظام کے خلاف تھے اور ان کی وفات سے بلوچستان ایک ترقی پسند، روشن خیال اور بااصول سیاست دان سے محروم ہو گیا ہے۔