اپنی زندگی اور موت کے دوران فیدل کاسترو نے کیوبا کے باشندوں کو تقسیم کیا۔ ایک وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی پسند یا مجبوری کی وجہ سے اپنا وطن نہیں چھوڑا، اور وہ دوسرے وہ لوگ تھے جو شکستہ کشتیوں یا ہوائی جہازوں کے ذریعے ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
اسی طرح امریکہ کی پالیسی نے بھی آبنائے فلوریڈا کی دونوں جانب آبادی کو تقسیم کیا۔ اب حالیہ برسوں میں امریکہ نے کیوبا کے ساتھ اپنےسفارتی تعلقات کی تجدید کی ، جو امریکہ میں انتظامیہ کی تبدیلی کے سبب ایک بار پھر بدل سکتے ہیں۔
میامی میں جہاں کیوبا سے جلاوطن ہونے والے افراد موجود ہیں اور کاسترو مخالف جذبات پائے جاتے ہیں، ان کی موت پر لوگوں کو خو ش ہوتے ہوئے دیکھا گیا اور کیوبا نژاد امریکی صبح سویرے سڑکوں پر نکل آئے۔ اور کیوبا کے دارالحکومت میں پارٹی کے اندر ردعمل منقسم دکھائی دیا۔ ایک وہ لوگ تھے جنہوں نے کاستروکی قیادت کی مخالفت کی تھی اور دوسرے وہ تھے جنہوں نے اپنے لیڈر کی موت پر دکھ کا اظہار کیا۔
ہسپانوی زبان کے ایک اخبار کی شہ سرخی تھی کہ کاسترو 25 نومبر کو رات 10 بج کر 29 منٹ پر مر گیا۔
ایک بلاگر یوانی سانشز نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ اب وہ اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ وہ چلا گیا۔ ہم فیدل کاسترو سے محفوظ ہوگئے۔ یہ بلاگر کئی برسوں سے کیوبا میں کاسترو کے خلاف سب سے نمایاں آواز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کاسترو کے حامی ایک مصنف ینیما دائز نے اپنے بلاگ پر لکھا کہ دنیا آپ کے جانے پر رو رہی ہے۔ اگرچہ کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو ہنس رہے ہیں۔وہ سوچتے ہیں کہ تمہارے چلے جانے سے سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ گویا موت زندگی بھر کیے ہوا تمام کام ختم کر دے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوگا۔
کاسترو کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا گیا، ان میں کاسترو کا احترام کرنے و الے اور ان سے نفرت کرنے والے دونوں شامل ہیںَ۔ اس سے پہلے ان کی موت کے بارے میں 60 کے عشرے سے غلط خبریں پھیلائی جاتی رہی ہیں۔
ہوانا کی ایک صحافی رینالدو اسکودر نے، جن کا تعلق کیوبا کی خبروں کی غیرسرکاری ویب سائٹ سے ہے، لکھا ہے کہ فیدل کاسترو مرچکے ہیں۔ یہ خبر کچھ لوگوں کے لیے دکھ کا اور کچھ کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ لیکن اس بار ان کی موت کی خبر سچی ہے۔
کئی برسوں سے، اپنی گرتی ہوئی صحت کے سبب کاسترو عوام کے سامنے نہیں آ رہے تھے اور ایک ایسے وور میں روزمرہ کے امور اپنے بھائی راؤل کی مدد سے چلائے جارہے تھے جب واشنگٹن اور ہوانا کے درمیان تعلقات کی تجدید ہو رہی تھی۔ یہ چیز کاسترو کے عشروں پر پھیلے ہوئے اقتدار اور گیارہ امریکی صدور کے عہد میں نہیں ہوسکی تھی ۔
صدر براک اوباما پہلے ایسے امریکی صدر تھے جنہوں نے کاسترو کے انقلاب کے بعد اس جزیرے کا دورہ کیا اور امریکہ اور کیوبا کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کیے۔
کاسترو کے انتقال کے بعد کیوبا کے کنوسین کہتے ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ فوراً ہی کوئی بڑی تبدیلی آجائے گی۔ ان کا اثاثہ مختلف حوالوں سے اپنا وزن رکھتا ہے۔ ان کے بھائی راؤل 2018 تک اقتدار میں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب سوال یہ ہے کہ آیا فیدل کاسترو کی موت ان سخت گیر عناصر کو کمزور کر دے گی جو اصلاحات کی مزاحمت کرتے ہیں۔
اسی طرح فلوریڈ ا انٹرنیشنل یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کےڈائریکٹر برائن فانسکا کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ کیوبا میں فوری طور پر کوئی سیاسی تبدیلی آئے گی۔لیکن جزیرے پر سے کاسترو کا سایہ ہٹنے سے آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
مگر ہوانا کے لوگ جو پچھلے مارچ میں صدر اوباما کے دورے کے لیے تیارتھے، اب وہ غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ دوبارہ بحال ہونے والے سفارتی تعلقات سے وہ کیا حاصل کرسکے کیونکہ اقتصادی پابندی ختم ہونے کے بعد ، امریکی پالیسیوں کے قطع نظرکیوبا پر زیادہ تر کاسترو خاندان کا کنڑول رہا۔
کاستروکےسخت گیر ساتھی امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو بہتر خیال نہیں کرتے ۔ ان کے خیال تھا کہ اس سے جزیرے میں تبدیلی نہیں آسکتی۔
فلوریڈا انٹرنیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈرڈو کوامارا کا کہنا ہے کہ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں کیوبا کے حوالے سے تبدیلی کا تصور غیر واضح ہے۔
انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ کیوبا پر صدر اوباما کی پالیسی کو پلٹ دیں گے۔تاوقتتکہ کہ کاسترو کی حکومت ہمارے مطالبات پورے نہیں کرتی۔ان مطالبات میں مذہبی اور سیاسی آزادیاں شامل ہیں۔
ہفتے کے روزٹرمپ نے ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کاسترو کو ایک سفاک ڈکٹیٹراور کیوبا کو ایک مطلق العنان جزیرہ قرار دیا۔
پروفیسر کنوسین کا کہنا ہے کہ اس طرح کا لب و لہجہ یقینی طور پر ان کی آنے والی انتظامیہ کی سمت کا تعین کرے گا۔