رسائی کے لنکس

ترقی یافتہ ملکوں میں چین کے بارے میں رائے عامہ خراب: نیا جائزہ


امریکہ اور چین کے سفارت کاروں کی بملاقات
امریکہ اور چین کے سفارت کاروں کی بملاقات

ایسے میں جبکہ چینی صدر شی جن پنگ تیسری مدت صدارت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی تیاری کر رہے ہیں ایک نئےجائزے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں شی کے دور اقتدار میں کس طرح چین کے بارے میں رائے عامہ خراب ہوتی رہی ہے۔

توقع کی جارہی ہے کہ شی کو سولہ اکتوبر کو چین میں کمیونسٹ پارٹی کانگریس تیسری مدت کے لئے صدارت کی ذمہ داری سونپ دے گی۔ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک ہی شخص نےتیسری مدت کے لئے یہ منصب سنبھالا ہو۔

پیو ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کےحوالے سے بیجنگ کی خراب کار کردگی کے بعد حالیہ برسوں میں ملک کے بارے میں زوال پذیر عالمی رائے عامہ مزید بد تر ہوئی ہے۔

شی نے پہلی بار دو ہزار بارہ میں اس وقت صدارتی ذمہ داریاں سنبھالیں تھیں جب چین کے بارے میں عالمی رائے عامہ میں ایک ٹھیراؤ تھا۔ جس کی بعد دو ہزار سترہ کے جائز وں نے بتایا کہ یہ رائے عامہ نمایاں طور پر خراب ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اور پھر دو ہزار انیس سے دو ہزار بیس کے دوران چین کے بارے میں عالمی رائے عامہ ڈرامائی حد تک بدتر ہوگئی۔

محقیقین کہتے ہیں کہ چین کی حمایت میں اس کمی کا سبب اس کی فوجی قوت اور حقوق انسانی کے مسائل پر پائی جانے والی تشویش ہے۔

پیو ریسرچ سینٹر کی سینئیر ریسرچر اور رپورٹ کی شریک مصنفہ لارا سلور نے وائس آف امریکہ کی مینڈیرین سروس کو بتایا کہ ان جگہوں پر جہاں لوگوں کو اپنی اندرون ملک سیاست میں چین کے ملوث ہونے پر بطور خاص تشویش ہے یا چین کے پڑوسی ملکوں میں جہاں چین کی فوجی قوت کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے یا پھر وہاں جہاں چین کے حقوق انسانی سے متعلق ریکارڈ کو مسئلہ سمجھا جاتا ہے. چین کے بارے میں زیادہ منفی رجحان پایا جاتا ہے۔

پیو سینٹر کا کہنا ہے کہ ہے دو ہزار چودہ سے شی کے نظریات منفی ہونا شروع ہوئے۔ اور حالیہ برسوں میں یہ منفی نظریات بتدریج شدید ہوتے گئے ہیں۔

شی کے دور اقتدار میں متعدد تنازعات پیدا ہوئے، جن میں جنوبی بحیرہ چین میں اس کی فوجی توسیع، ہانگ کانگ میں جمہوریت کی حمایت میں ہونے والے بہت بڑے مظاہروں کو دبانا،ا یغور لوگوں کے حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں اور شی کے ذاتی اختیارات کو مزید استحکام دینے جیسے معاملات شامل ہیں۔

جائزے کے مطابق دو ہزار بائیس تک دو کے علاوہ باقی تمام ترقی یافتہ ممالک میں اکثریت، عالمی امور کے سلسلے میں شی کے نقطہ نظر پر یا تو بالکل اعتماد نہیں کرتی یا اسے بہت تھوڑا اعتماد ہے۔ آسٹریلیا، فرانس، سوئیڈن اور جاپان میں جن لوگوں کو اس سروے میں شامل کیا گیا ان میں سے آدھے سے زیادہ شی پر بالکل اعتماد نہیں رکھتے۔ لیکن ملیشیا اور سنگا پور میں سروے میں شامل لوگوں میں سے ساٹھ فیصد نے کہا کہ وہ شی پر اعتماد رکھتے ہیں۔

چین کی لاطینی امریکہ کے کالجز میں اثرو رسوخ بڑھانے کی کوششیں
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:35 0:00

پیو سینٹر کے مطابق چین کی پھلتی پھولتی معیشت اور بڑھتے ہوئی بیرون ملک سرمایہ کاری کے باوجود، بیجنگ کی بین الاقوامی شہرت زیادہ مثبت نہیں ہوئی ہے۔

چین امریکہ کا ایک بڑا تجارتی ساجھے دار ہے۔ لیکن امریکہ میں اس جائزے میں شامل کئے گئے بیاسی فیصد لوگوں نے اس سال چین کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار کیا۔ جو دو ہزار بیس میں اسی قسم کے خیالات رکھنے والے اناسی فیصد لوگوں سے زیادہ ہے۔

جائزے میں توجہ دلائی گئی ہے کہ سروے اس میں شامل لوگ عمومی طور پر چین کے حوالے سے اپنی گفتگو چینی قیادت اور حکومت کو ذہن میں رکھ کر کرتے ہیں نہ کہ چینی عوام کو۔

امریکہ سے اس جائزے میں شامل ایک شخص نے کہا کہ چین کے لوگ بنیادی طور پر اچھے ہیں، لیکن ان کے لیڈر شی بہت زیادہ کنٹرول چاہتے ہیں اور اتنی طویل مدت تک انہیں اقتدار میں نہیں ہونا چاہئیے۔

XS
SM
MD
LG