بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت انڈین نیشنل کانگریس میں قیادت کی تبدیلی کا معاملہ زیرِ بحث ہے۔ پارٹی رہنماؤں کے آپس میں ایک دوسرے پر الزامات اور اعتماد کے فقدان نے پارٹی کو منقسم کر دیا ہے۔
کانگریس کے 23 رہنماؤں پر مشتمل ایک گروپ نے حال ہی میں پارٹی صدر سونیا گاندھی کو ایک خط لکھا تھا جس میں پارٹی کو متحرک رکھنے کے لیے کل وقتی صدر کے علاوہ تنظیمِ نو کا مطالبہ کیا تھا۔
جن رہنماؤں نے یہ خط لکھا تھا ان میں پارٹی کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد اور ششی تھرور بھی شامل تھے۔
اس سلسلے میں پیر کو کانگریس کی اعلٰی فیصلہ ساز باڈی 'کانگریس ورکنگ کمیٹی' کا ایک ورچوئل اجلاس منعقد ہوا جو سات گھنٹے تک جاری رہا۔
اجلاس کے دوران سونیا گاندھی نے پارٹی صدارت سے مستعفی ہونے اور ایک نئے صدر کے انتخاب کی پیش کش کی جسے تسلیم کر لیا گیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کانگریس عبوری دور سے گزر رہی ہے، لہذٰا اسے ملکی سیاست میں متحرک رہنے کے لیے بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔
اجلاس کے دوران سابق وزیرِ اعظم من موہن سنگھ اور سابق وزیرِ دفاع اے کے انتھونی نے سونیا گاندھی سے صدر برقرار رہنے کی اپیل کی تھی۔
اجلاس کے اختتام پر یہ طے پایا کہ پارٹی کے تنظیمی جنرل سیکرٹری کے سی وینو گوپال نئے صدر کے انتخاب کے لیے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا اجلاس طلب کریں گے۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی میں ملک بھر سے 8000 سے زائد مندوبین ہیں۔
یہ بھی طے ہوا کہ کرونا کی وبا کے پیشِ نظر فوری طور پر اجلاس بلانا ناممکن ہے لیکن چھ ماہ کے اندر اجلاس طلب کر لیا جائے اور ایک نئے صدر کا انتخاب عمل میں لایا جائے۔ اس وقت تک سونیا گاندھی عبوری صدر برقرار رہیں گی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔
اجلاس کے دوران گاندھی نہرو خاندان کے وفاداروں اور باغی کیمپ کے درمیان ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی کی گئی۔
اجلاس کے دوران ہی ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں یہ خبر آئی کہ راہول گاندھی نے الزام عائد کیا ہے کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اشارے پر مذکورہ خط لکھا گیا اور ایسے وقت لکھا گیا جب سونیا گاندھی اسپتال میں تھیں اور پارٹی کو راجستھان میں سیاسی بحران کا سامنا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ خط سات اگست کو لکھا گیا البتہ یہ میڈیا کے ذریعے 23 اگست کو منظرِ عام پر آیا۔
غلام نبی آزاد کا پارٹی چھوڑنے کا عندیہ
بھارتی اخبار 'انڈین ایکسپریس' نے اس خط کی تفصیلات بھی شائع کر دی تھی۔ لہٰذا اس پر بھی چہ موگوئیاں ہوئیں کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے اس خط کو میڈیا میں لیک کیا۔
راہول گاندھی کے الزام پر غلام نبی آزاد نے کہا کہ اگر یہ الزام ثابت ہو جاتا ہے تو وہ فوری طور پر پارٹی چھوڑ دیں گے۔
لیکن تھوڑی دیر کے بعد کانگریس رہنما کپل سبل نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اُن کی راہول گاندھی سے بات ہوئی ہے اور اُن کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے ایسا کوئی الزام عائد نہیں کیا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں راجستھان میں بھی مدھیہ پردیش کی تاریخ دہرانے کی کوشش کی گئی۔ جہاں کانگریس کی حکومت ختم کر کے بی جے پی نے حکومت قائم کر لی تھی۔
راجستھان میں نوجوان لیڈر سچن پائلٹ نے وزیرِ اعلیٰ اشوک گہلوت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بی جے پی وہاں بھی کانگریس سے حکومت چھین لے گی۔ لیکن آخر میں راہول گاندھی کی مداخلت سے معاملہ سلجھ گیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کا گلہ ہے کہ سونیا گاندھی سمیت پارٹی قیادت اُنہیں ملاقات کا وقت نہیں دیتی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق تقریباً ہر ریاست میں اور مرکزی سطح پر بھی پرانے قائدین نئی نسل کو آگے نہیں آنے دیتے۔ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں نے مذکورہ خط لکھا تھا اس میں بھی ان کے ذاتی مفادات کا دخل تھا۔
روزنامہ 'ہندوستان' کے ایڈیٹر اور سینئر تجزیہ کار پرتاپ سوم ونشی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کانگریس اس وقت ایک عبوری دور سے گزر رہی ہے۔ راہول گاندھی کی قیادت والی نئی لیڈرشپ کئی محاذوں پر ناکام ہو چکی ہے جب کہ سونیا گاندھی کی قیادت والی پرانی لیڈر شپ کو نئے لوگوں کا عمل دخل پسند نہیں ہے۔
ان کے بقول کانگریس میں اس خیال کے کافی لوگ موجود ہیں کہ سونیا ہی پارٹی کو متحد رکھ سکتی ہیں۔ لہٰذا انہیں دوبارہ صدر بنایا گیا۔ لیکن چوں کہ وہ معمر ہو چکی ہیں اور ان کی صحت بھی ٹھیک نہیں رہتی اس لیے یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔
کانگریس پارٹی کے اجلاس کے بعد کے سی وینوگوپال اور پارٹی کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایک نیوز کانفرنس میں ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی گئی ہے۔ لہذٰا پارٹی کے اجلاس میں نئے صدر کا انتخاب کیا جائے گا۔
دونوں رہنماؤں نے پارٹی میں اصلاحات کے بارے میں زیرِ بحث خط کے بارے میں کہا کہ پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ہمیں اسے بھول کر آگے بڑھنا ہے۔ تاہم یہ بھی طے ہوا کہ مذکورہ خط میں جن مسائل کو اٹھایا گیا ہے ان پر غور کرنے اور اُنہیں حل کرنے کے لیے ایک کمٹی تشکیل دی جائے گی جو اس بارے میں سونیا گاندھی سے تعاون کرے گی۔
رندیپ سورجے والا نے بتایا کہ ورکنگ کمیٹی میں بہت سے اہم رہنما شامل تھے اور ان کی رضامندی سے ہی پارٹی ورکنگ کمیٹی نے اتفاق رائے سے ایک قرار داد منظور کی ہے۔
سونیا گاندھی نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ اس وقت پارٹی کو حکومت کی ناکامیوں اور عوام کو تقسیم کرنے والی اس کی پالیسیوں کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے۔
قرارداد میں بھی ان مسائل کا ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ کرونا کی وبا نے لاکھوں افراد کو بے روزگار کر دیا ہے۔ اس میں بھارت اور چین تنازع کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
مذکورہ خط میں اس بات پر بھی زور دیا گیا تھا کہ انتخابات میں پارٹی کی شکست پر احتساب نہیں کیا گیا۔ لیکن اجلاس کے دوران خط میں اٹھائے گئے مسائل پر کوئی بات نہیں کی گئی۔
یاد رہے کہ کانگریس کو 2014 اور 2019 کے عام انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 2019 کے انتخابات میں اس کے صرف 52 ارکان ہی کامیاب ہوئے تھے۔
کانگریس پارٹی کی مقبولیت کا گراف مسلسل نیچے آ رہا ہے اور ریاستوں میں اس کی حکومت ختم ہوتی جا رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ہر ریاست میں کانگریس میں گروپ بازی ہے۔ پرانے رہنما نئے لوگوں کو آگے نہیں بڑھنے دیتے۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کے سینئر لیڈر جیوترا دتیہ سندھیا نے اس رویے کے خلاف بغاوت کی اور انہوں نے اپنے حامی ایک درجن سے زائد ارکانِ اسمبلی کے ساتھ بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
اس طرح مدھیہ پردیش سے کانگریس کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور بی جے پی نے اپنی حکومت بنا لی ہے۔
جیوترا دتیہ کا خیال ہے کہ نئے لوگوں کو پارٹی میں جوڑنے کے لیے جس کرشمے کی ضرورت ہے وہ پارٹی میں موجود نہیں ہے۔ کانگریس کو زندہ کرنے کے لیے پرینکا گاندھی کو بھی لایا گیا اور انہیں اتر پردیش کا انچارج اور جنرل سکریٹری بنایا گیا لیکن یہ تجربہ بھی ناکام ہو گیا۔
تجزیہ کار سوم ونشی نے کہا ہے کہ کانگریس کے اندر سے یہ آواز اٹھنے لگی ہے کہ اگر راہول گاندھی صدارت سنبھالنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور سونیا گاندھی قیادت کی اہل نہیں رہیں تو کیوں نہ نہرو گاندھی خاندان سے باہر سے کسی کو لایا جائے۔
لیکن کیا پارٹی کے لوگ باہر کے کسی لیڈر کی قیادت کو تسلیم کر لیں گے؟ اس سوال پر سوم ونشی کہتے ہیں کہ کانگریس کا جو ڈھانچہ ہے اسے دیکھتے ہوئے کچھ کہنا مشکل ہے۔
روزنامہ 'جدید خبر' کے ایڈیٹر اور سینئر صحافی معصوم مراد آبادی کا کہنا ہے کہ نہرو گاندھی خاندان کانگریس کی سب سے بڑی طاقت اور سب سے بڑی کمزوری بھی ہے۔
ان کے بقول اس خاندان سے باہر کے لوگوں کو لانے کی بھی بات ہوتی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ باہر کا کوئی لیڈر پارٹی کو متحد نہیں رکھ سکے گا۔ لہٰذا کانگریس کو چاہیے کہ یا تو اپنی اس طاقت کا بھرپور استعمال کرے یا پھر اس تاثر سے نجات حاصل کر لے۔
اُن کے خیال میں کانگریس میں اعتماد کا بھی فقدان ہے۔ کوئی رہنما کسی دوسرے پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں جو کچھ ہوا وہ اس کا ثبوت ہے۔ پارٹی کو اس بداعتمادی کے رجحان کو ختم کرنا ہو گا حس کے بعد وہ متحد ہو سکتی ہے۔
سینئر تجزیہ کار انل چمڑیا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس پارٹی پرانی اور نئی نسل کے درمیان ایک جنگ میں الجھی ہوئی ہے۔ ابھی تک کانگریس کی قیادت اندرا گاندھی یا راجیو گاندھی کے ہاتھوں میں رہی ہے اور جو پرانے لوگ ہیں وہ سونیا گاندھی کے وفادار ہیں۔ ان کے اپنے اپنے مفادات بھی ہیں۔
اُن کے خیال میں کانگریس میں بس ایک بات کی لڑائی ہے کہ کیا سینئر رہنما راہول گاندھی کو اس بات کی اجازت دیں گے کہ وہ اپنی پسند کی ٹیم بنا سکیں۔ یہی بات کانگریس کے مستقبل کو طے کرے گی۔
انل چمڑیا نے کہا کہ راہول کا یہ کہنا کہ سینئر رہنما اپنا کوئی نیا صدر منتخب کر لیں، دراصل یہ ثابت کرنے کے لیے ہے کہ ان کے علاوہ کوئی اور اس منصب کو سنبھالنے کا اہل نہیں ہے۔
اُن کا مزید کہنا ہے کہ راہول گاندھی خود کے لیے وقت لے رہے ہیں۔ وہ ابھی تو صدر نہیں بنیں گے لیکن اگلے پارلیمانی انتخابات سے دو ایک سال قبل وہ خود کو اس لائق کر لیں گے کہ پارٹی کی کمان سنبھال سکیں۔
تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ کانگریس پارٹی اور نہرو گاندھی خاندان ایک دوسرے کے لازم و ملزوم بن گئے ہیں۔ حالانکہ ماضی میں اس خاندان سے باہر کے بھی لوگ صدر کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ لیکن اب کانگریس اتنی کمزور ہو گئی ہے اور اس میں اتنی اندرونی لڑائی ہے کہ باہر کا کوئی شخص شاید ہی اس پارٹی کو سنبھال سکے اور پارٹی کارکن اس پر اعتماد کر سکیں۔