|
لاہور -- جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ایک حالیہ جلسے میں احمدی کمیونٹی سے متعلق اشتعال انگیز تقریر پر کمیونٹی کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ہفتے کو لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے زیر اہتمام ہونے والی ختم نبوت کانفرنس میں ایک مقرر نے کہا تھا کہ اگر قادیانیوں کے خلاف حکومت کارروائی نہیں کرے گی تو ہم خود انہیں نشانہ بنائیں گے۔
پاکستان میں گزشتہ ہفتے کا اختتام مختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے 50 سال مکمل ہونے کے طور پر منایا گیا۔ اِس سلسلے میں چھوٹی بڑی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔
ایسی ہی ایک تقریب کا انعقاد جمعیت علمائے اسلام (ف) کے زیرِ اہتمام لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں کیا گیا جسے ختم نبوت کانفرنس کا نام دیا گیا۔ ایک مقرر نے دورانِ تقریر حاضرینِ جلسہ کو احمدیوں کے قتل پر بار بار اُکسایا۔
احمدی کمیونٹی کا اظہارِ تشویش
احمدیوں کو یوں سرِ عام قتل کرنے کے لیے اُکسائے جانے پر پاکستان کی احمدی کمیونٹی میں تشویش پائی جاتی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں رہنے والی احمدی کمیونٹی پہلے ہی خوف کی فضا میں رہتی ہے اِس طرح کی تقاریر سے اُن کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔
جماعتِ احمدیہ کے ترجمان عامر محمود کہتے ہیں کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ ایک عوامی اجتماع میں ایک شخص پاکستان میں بسنے والے پرامن احمدیوں کے قتل پر اُکسا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عامر محمود کا کہنا تھا کہ احمدیوں کو قتل کرنے پر اُکسانے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں جو پاکستان کے سائبر قوانین کے بھی خلاف ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو اِس سلسلے میں فوری اور مؤثر کارروائی کرنی چاہیے۔
'سزا دینا صرف ریاست کا کام ہے'
احمدیوں سے متعلق اشتعال انگیز تقاریر پر علمائے کرام اور مذہبی اسکالرز کی جانب سے بھی مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔
پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی شخص کو کسی دوسرے شخص کو قتل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ اختیار صرف ریاست کے پاس ہے کس کو کیا سزا دینی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ بات بھی بڑی واضح ہے کہ قانون اور آئین پر عمل کرانا بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔
حافظ طاہر اشرفی کے بقول اگر کوئی توہینِ مذہب کرتا ہے تو اس کے قتل پر اُکسانے کے بجائے علمائے کرام کو قانون کا راستہ اختیار کرنے پر زور دینا چاہیے۔
اُن کے بقول اگر ملک سے نفرت ختم کرنی ہے تو آئین اور قانون پر عمل کیا جانا چاہیے۔ جب کوئی گروہ توہینِ مذہب کرتا ہے تو اس سے معاشرے میں نفرت بڑھتی ہے جس کے جواب میں جو عمل ہو گا اُس میں بھی شدت ہو گی۔
'قانون کی عمل داری نہ ہو تو انتہاپسندی بڑھتی ہے'
جامعہ پنجاب میں اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد حماد سمجھتے ہیں کہ ملک میں آئین اور قانون کی عمل داری سے متعلق شکایات ہوں تو لوگ پھر قانون کو خود ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں انتہا پسندی اسی لیے بڑھ رہی ہے کیوں کہ ملک میں عدل و انصاف نہیں ہے۔
اُن کے بقول معاشرتی ناہمواری اور عدمِ استحکام بھی انتہا پسندی کی وجوہات ہیں۔
'مقرر کا اندازِ بیان درست نہیں تھا'
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ترجمان اسلم غوری کہتے ہیں کہ یہ کوئی سیاسی نہیں بلکی شرعی مسئلہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اسلام میں 'مرتد' کی سزا موت ہے۔ اس بات کو کوئی کس طرح کہنا چاہے یہ اس کی مرضی ہے۔ اس کے لیے عدالتیں موجود ہیں اور جماعت ہمیشہ سے ہی آئین اور قانون کا راستہ اختیار کرنے پر ہی زور دیتی رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایک شخص کی رائے کو پوری کانفرنس پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ شرعی ہے لیکن اندازِ بیان درست نہیں تھا۔
پاکستان میں احمدی کمیونٹی کے حوالے سے بات کرنا ہمیشہ سے حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے اور اس بارے میں ماضی میں کئی افراد کو صرف الزام لگنے پر ہی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔
احمدی کمیونٹی کے افراد خود کو مسلمان قرار دیتے ہیں، تاہم آئینِ پاکستان اُنہیں غیر مسلم قرار دیتا ہے۔
احمدی کمیونٹی کے افراد کا گلہ رہتا ہے کہ پاکستان میں اُنہیں مذہبی آزادی حاصل نہیں اور ان پر مقدمات قائم کر کے ہراساں کیا جاتا ہے۔
خیال رہے پاکستان میں یوں سرِ عام لوگوں کو احمدیوں کی نسل کشی کی ترغیب دینے یا کسی کو بھی سرِ عام قتل کرنے کی بات کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
گزشتہ ماہ ایک مذہبی سیاسی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے نائب امیر نے مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو سرِ عام قتل کرنے پر انعام کا اعلان کیا تھا۔
پولیس تاحال یوں سرِعام قتل کا انعام دینے والے شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکی ہے۔
فورم