پاکستان کے کوچ وقار یونس نے اُمید ظاہر کی ہے کہ عالمی کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں سیمی فائنل کی طرف اُن کی ٹیم کی پیش رفت اندرون ملک بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی میں مددگار ثابت ہوگی۔
مارچ 2009ء میں لاہور میں کھیلے جانے والے ایک ٹیسٹ میچ کے دوران سری لنکن ٹیم کی بس پرمہلک دہشت گردانہ حملے کے بعدپاکستان کی ٹیم اپنے ملک میں آج تک کوئی بین الاقوامی میچ نہیں کھیل سکی ہے جبکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے سلامتی کے خدشات کے پیش نظر پاکستان کو دسویں عالمی کپ کی مشترکہ میزبانی کے حق سے بھی محروم کردیا تھا ۔
گزشتہ ہفتے کولمبو میں کھیلے گئے گروپ اے کے آخری میچ میں دفاعی چیمپیئن آسٹریلیا کو شکست دینے کے بعد بدھ کو عالمی کپ کے پہلے کوارٹر فائنل میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو بھی دس وکٹوں سے ہرا کر سیمی فائنل کھیلنے کا اعزا ز حاصل کر لیا جہاں اُس کا مقابلہ بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان جمعرات کو کھیلے جانے والے میچ کی فاتح ٹیم سے ہوگا۔
ڈھاکہ میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے وقار یونس نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ عالمی کپ میں اُن کی ٹیم کی کامیابیوں کی بدولت پاکستان میں کرکٹ کے بارے میں ایک مثبت پیغام پھیلے۔” آپ جانتے ہیں کہ کتنا نقصان ہو رہا ہے اور کتنے غم کی بات ہے کہ پاکستان میں(بین الاقوامی) کرکٹ کی واپسی نہیں ہوسکی ہے۔ لہذا میرا خیال ہے کہ ہماری ٹیم کے لیے اچھا کھیلنا بہت اہمیت کا حامل ہے تاکہ لوگوں کو یقین ہو جائے کہ ہم کرکٹ کھیلنے والی ایک اچھی قوم ہیں۔ اس سے یقینا حالات ہمارے حق میں بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے اور اُمید ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ بھی ملک میں واپس لوٹ آئے گی “۔
سلامتی کے خدشات کی وجہ سے اندرون ملک کرکٹ میچوں کے نا ہونے کے علاوہ حالیہ مہینوں میں عالمی سٹے بازی اورا سپاٹ فکسنگ کے الزامات ثابت ہونے کی پاداش میں سلمان بٹ ، محمد آصف اور محمد عامر پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی طرف سے پابندی کے فیصلے، قومی ٹیم کے اندرونی جھگڑے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کا عالمی کپ سے محض دس روز پہلے شاہد آفرید ی کو ٹیم کا کپتان مقرر کرنے جیسے اقدامات نے بھی پاکستانی ٹیم کے مسائل میں اضافہ کیا ۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بین الاقوامی کرکٹ کے بحالی کی کوششوں میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی مدد کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دے رکھی ہے جس کا مقصد سلامتی کے نکتہء نظر سے ملک میں میچوں کے انعقاد کے امکانات کی نشاندہی کرنا ہے تاکہ دوسری ملکوں کی ٹیموں کا پاکستان پر اعتماد بحال ہو سکے۔لیکن مستقبل قریب میں بین الاقوامی میچوں کے انعقاد کے کوئی آثار دکھا ئی نہیں دے رہے۔
اِن تمام حالات کے باعث عالمی کپ شروع ہونے سے پہلے پاکستان کو اُن ملکوں میں شمار نہیں کیا جارہا تھا جو یہ اعزاز جیتنے کے لیے فیورٹ سمجھے جارہے تھے۔ وقار یونس نے بھی اعتراف کیا کہ ماضی میں اُن کی ٹیم بہت زیاد ہ تنازعات کا شکار رہی۔”لیکن ان حالات نے ہمارے اس یقین کو بھی پختہ کیا کہ ہم اس عالمی کپ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں اور شاید ان تنازعات سے گزرنے کے بعد ٹیم میں اتحاد پیدا ہوا۔“
پاکستان کا سیمی فائنل میچ 30 مارچ کو بھارت کے شہر موہالی میں ہوگااور وقا ر یونس کا کہنا ہے کہ اگر اُن کی ٹیم کا مقابلہ روایتی حریف بھارتی ٹیم سے بھی ہوا تو وہ پراُمید ہیں کہ تماشائیوں میں پاکستان کی حمایت کرنے والے بھی موجود ہوں گے۔ ” یہاں (بنگلہ دیش) سے اب ہم موہالی جارہے ہیں اورتوقع ہے کہ اُس میچ کو دیکھنے کے لیے لاہور سے بھی تماشائی ہماری حمایت کے لیے آئیں گے۔“