|
برطانیہ کے جنوبی علاقے میں ایک کارکن کو چونے کے پتھر والے علاقے میں کھدائی کے دوران ڈائنو سارز کے قدموں کے نشان دکھائی دیے جو نرم مٹی پر ثبت ہو گئے تھے۔ اس علاقے میں لگ بھگ 200 ایسی پگڈنڈیاں تھیں جن پر یہ نشانات موجود تھے۔
قدیم حیاتیات کے ماہرین نے تحقیق کے بعد کہا ہے پاؤں کے نشانات والی اتنی زیادہ پگڈنڈیوں کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ علاقہ ڈائنو سارز کی صرف گزرگاہ ہی نہیں بلکہ ان کا ہائی وے تھا۔
یہ نشانات تقریباً 16 کروڑ 60 لاکھ سال پرانے ہیں، جب دنیا میں ڈائنو سارز راج کرتے تھے۔
یہ غیر معمولی انکشاف اس وقت ہوا جب ایک سو سے زیادہ افراد پر مشتمل ایک ٹیم آکسفورڈ شائر کے علاقے ڈیورز فارم میں چونے کے پتھر کی کانوں والے علاقے میں کھدائی کر رہی تھی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی اور برمنگھم یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جون میں کی جائے والی اس کھدائی سے قدیم حیاتیات سے متعلق تحقیق میں وسعت آئی ہے اور ڈائنو سارز کے وسطی دور کے بارے میں معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔
برمنگھم یونیورسٹی میں قدیم حیاتیات کی ایک ماہر کرسٹی ایڈگر کہتی ہیں کہ پاؤں کے یہ نشانات ڈائنو سارز کی زندگیوں کے بارے میں ایک جادوئی کھڑکی کھول رہے ہیں جو ہمیں ان کی نقل و حرکت، میل ملاپ اور مرطوب علاقے میں ان کے ٹھکانوں کے بارے میں وسیع تر معلومات فراہم کرتی ہے۔
چونے کے پتھروں پر ثبت پاؤں کے نشانات والی چار پگڈنڈیوں کے ایک مجموعے کو ریسرچرز نےڈائنو سارز ہائی وے کا نام دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہائی وے سارپاڈ، یا سیٹی سورس نسل کےڈائنو سارز کے زیر استعمال رہی تھی۔ ان دیوقامت ڈائنو سارز کی لمبائی لگ بھگ 60 فٹ اور گردنیں لمبی تھیں۔ بنیادی طور پر یہ سبزی خور جانور تھے۔
پگڈنڈیوں کا ایک پانچواں مجموعہ میگالوسورس نسل کے ڈائنو سارز کی گزرگاہ تھی۔ یہ وحشی اور خونخوار ڈائنو سارز تھے جن کی لمبائی تقریباً 9 میٹر یعنی 30 فٹ تھی۔ یہ شکاری صفات کے حامل گوشت خور ڈائنو سارز تھے۔ چونے کے پتھروں پر ان کے تین پنجوں والے نشان ثبت ہیں۔ ان ڈائنو سارز کی شناخت دو صدیاں قبل ہوئی تھی۔
ایک ایسے علاقے میں جہاں سبزی خور اور گوشت خورڈائنو سارز کی گزرگاہیں ایک دوسرے کو کاٹ رہی ہیں، ذہنوں میں ان کے درمیان تعلق کے بارے میں سوالات اٹھاتی ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی آف نیچرل ہسٹری میں ریڑھ کی ہڈی والے قدیم جانوروں کی ایک ماہر ایما نکولس کہتی ہیں کہ سائنس دان، طویل عرصے سے زمین پر موجود کسی بھی دوسری قسم کے ڈائنو سارز کی نسبت میگالوسورس کے متعلق زیادہ جانتے ہیں اور اس پر تحقیق کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس نئی دریافت سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ابھی اور بھی بہت کچھ جاننا باقی ہے۔
لگ بھگ 30 سال پہلے چونے کے پتھر کی ایک کان میں ڈائنو سارز کے پاؤں کے نشانات کے 40 مجموعے دریافت ہوئے تھے، جسے ڈائنو سارز کی گزرگاہ کے طور پر سائنسی اہمیت کی ایک اہم ترین دریافت قرار دیا گیا تھا۔ لیکن یہ علاقہ زیادہ تر ناقابل رسائی ہے اور ان دریافتوں کے بارے میں تصویری شواہد بہت محدود ہیں کیونکہ اس وقت تک ڈیجیٹل کیمرے اور ڈرونز ایجاد نہیں ہوئے تھے۔
لیکن موجودہ سائٹ پر موسم گرما میں کام کرنے والے ماہرین نے 20 ہزار سے زیادہ ڈیجیٹل تصویریں بنائی ہیں اور تھری ڈی ماڈل بنانے کے لیے ڈورنز کا بھی استعمال کیا ہے۔ ان دستاویزات سے ڈائنو سارز کے حجم ، ان کے چلنے پھرنے اور رفتار کے متعلق مزید جاننے میں مدد ملے گی۔
آکسفورڈ میوزیم کے ارتھ سائنٹسٹ ڈنکن مرڈوک کہتے ہیں کہ اکھٹے کیے گئے شواہد اتنے تفصیلی ہیں کہ ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ڈائنو سارز کے پاؤں رکھنے اور اٹھنے سے دب کر گارے نے کیسی شکل اختیار کی تھی۔
ان کامزید کہنا تھا کہ ڈائنو سارز کے عہد سے متعلق دیگر باقیات، مثال کے طور ان کے ڈھانچے، نشانات اور پودوں کو ساتھ رکھ کر ان نئی دریافتوں کی مدد سے ہم ان کی زندگی کی جھلک دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کس طرح دلدلی علاقوں سے گزرتے اور چلتے پھرتے تھے۔
چونے کی کانوں سے حاصل ہونے والی ان دریافتوں کو میوزیم کی ایک نئی نمائش میں رکھا جائے گا۔
(اس رپورٹ کی کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)
فورم