پاکستان میں احمدی کمیونٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ پنجاب کے شہر ڈسکہ میں اُن کے دو قبرستانوں میں درجنوں قبروں کو مبینہ طور پر نقصان پہنچایا گیا ہے۔
احمدی کمیونٹی کے مطابق 24 جنوری کو ڈسکہ میں پیش آنے والے واقعے میں ڈسکہ کے علاقے موسے والا میں 65 جب کہ بھروکے میں 15 قبروں کی مبینہ طور پر بے حرمتی کی گئی۔
خیال رہے کہ احمدی کمیونٹی کے افراد خود کو مسلمان سمجھتے ہیں، تاہم پاکستان کا آئین انہیں غیر مسلم قرار دیتا ہے۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی کچھ ویڈیوز میں پولیس کی وردی میں ملبوس کچھ افراد قبروں پر لگے کتبوں پر سیاہی مل رہے ہیں، اسی طرح کچھ ویڈیوز میں کتبوں کو توڑا جا رہا ہے۔
پاکستان میں احمدی کمیونٹی کے مرکزی رہنما عامر محمود کہتے ہیں کہ ڈسکہ میں 24 جنوری کو پیش آنے والے اس واقعے پر احمدی کمیونٹی خوف و ہراس میں مبتلا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں احمدی کمیونٹی کے انسانی حقوق پہلے ہی خطرے میں ہیں، اب ان کی قبروں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
عامر محمود کا کہنا تھا کہ قبروں کی بے حرمتی میں پنجاب پولیس کے اہلکار ملوث ہیں۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ جب مقامی احمدی برادری نے پولیس اہلکاروں سے سوال کیا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ اُنہیں ایسا کرنے کے لیے ڈسکہ کے انتظامی افسر اسسٹنٹ کمشنر نے کہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ سال ڈسکہ میں ہی پیش آیا تھا جس میں احمدی قبروں کی بے حرمتی کی گئی تھی۔ اُس وقت بھی مقامی انتظامیہ ملوث تھی۔
یاد رہے کہ اِس سے قبل بھی صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں لاہور، فیصل آباد، شیخوپورہ، گوجرانوالہ سمیت دیگر شہروں میں احمدی برادری کے قبرستانوں کو نقصان پہنچانے یا قبروں کی بے حرمتی کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
انتظامیہ کا مؤقف
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں ڈسٹرکٹ پولیس افسر سیالکوٹ سے بات کرنے کی کوشش کی تو وہ ایک سرکاری مقدمے کے سلسلے میں عدالتِ عالیہ لاہور میں تھے۔ تاہم اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ انور علی کانجو بتاتے ہیں کہ اُن کے علاقے میں بہت سے دیہات میں احمدی برادری اور مسلمان مل کر رہتے ہیں جہاں اس نوعیت کے اِکا دُکا واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے علم میں ڈسکہ ہی کے ایک گاؤں پیرو کا ایک واقعہ آیا تھا جو پولیس کی مدد سے حل کر لیا گیا تھا۔ حالیہ واقعات اُن کے علم میں نہیں ہیں۔
انور علی کانجو کے بقول اُنہیں ایس ایچ او صدر ڈسکہ نجم فراز نے بتایا ہے کہ مقامی احمدی کمیونٹی اور مسلمانوں کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ احمدیوں کی قبروں کے کتبوں سے کچھ چیزیں ہٹا دی جائیں۔
انور علی کانچو کے مطابق آئینِ پاکستان کے مطابق احمدی غیر مسلم ہیں، لہذٰا وہ اپنی قبروں کے کتبوں پر آیات یا اسلامی عبارتیں تحریر نہیں کر سکتے۔
اُن کا کہنا تھا کہ دونوں مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کا ایک مشترکہ قبرستان ہے جس میں کچھ احمدی قبریں ہیں اور زیادہ تر مسلمانوں کی قبریں ہیں۔
ضلع سیالکوٹ میں احمدی برادری کی قبروں کی مبینہ بے حرمتی پر پاکستان میں انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
ایچ آر سی پی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈسکہ میں پولیس کی جانب سے احمدی برادری کی قبروں پر کیا جانے والا ایکشن آئینِ پاکستان کے تحت غیر مسلموں کو دیے جانے والے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
فورم