الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریکِ انصاف کے منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کرنے سے متعلق بھیجا گیا ریفرنس مسترد کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ان اراکین نے تحریکِ عدم اعتماد کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا، لہذٰا ان پر آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے کا اطلاق نہیں ہوتا۔
پی ٹی آئی کے 20 منحرف ارکین قومی اسمبلی کے خلاف ریفرنسز ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ یہ ارکان منحرف ہوچکے ہیں لہذا ان کی اسمبلی رکنیت ختم کرتے ہوئے ان نشستوں کو خالی قرار دیا جائے۔
ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے 14 اپریل کو تحریکِ انصاف کے 20 منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن بھجوایا تھا۔ اس ریفرنس کی سماعت 28 اپریل کو شروع ہوئی اور 11 مئی کو اس پر فیصلہ سنایا گیا۔
دورانِ سماعت تحریکِ انصاف کے منحرف رُکن نور عالم خان کے وکیل بیرسٹر گوہر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نور عالم خان ابھی بھی پارٹی کا حصہ ہیں۔ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آٹھ مارچ کو لائی گئی،نور عالم ںے کبھی ایسا تاثر نہیں دیا کہ وہ پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔
بیرسٹر گوہر کےبقول اُن کے موکل کو 19 مارچ کو شوکاز نوٹس موصول ہوا اور 22 مارچ کو اس نوٹس کا جواب دیا گیا۔ 30 مارچ کو پارٹی چیئرمین نے نورعالم خان کو ہدایات دیں۔ انہوں نے پارٹی کے کچھ فیصلوں سے اختلاف کیا جو جمہوریت کا حصہ ہے۔ پارٹی چیئرمین نے قومی اسمبلی اجلاس میں شمولیت کی ہدایت کی جس پر تین اپریل کو نور عالم خان نے قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کی۔
ممبر الیکشن کمیشن ناصر درانی نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کا آئین اس حوالے سے کیا کہتا ہے؟ آرٹیکل 63 ون (اے) کیا کہتا ہے؟
اس پر بیرسٹر گوہر نے کہا کہ نور عالم خان نے کسی اور پارلیمانی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ سپریم کورٹ نے نو اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ حکم کے بعد پارٹی چیئرمین نے کوئی ہدایات جاری نہیں کیں۔ لیکن میڈیا میں ایسا تاثر دیا گیا کہ نور عالم خان نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی۔
ناصر درانی نے سوال کیا کہ کیا نور عالم خان نے تحریکِ عدم اعتماد کے دن ووٹ کاسٹ کیا؟ اس پر بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ نور عالم خان نے عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے ہی نور عالم خان کو منحرف قرار دے دیا۔
بیرسٹر گوہر نے عائشہ گلالئی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ عائشہ گلالئی کے خلاف نا اہلی ریفرنس خارج کرچکا ہے کیونکہ سیکریٹری جنرل کی جانب سے جاری شوکاز نوٹس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ نور عالم خان ابھی بھی پی ٹی آئی کے رکن ہیں۔
منحرف رکن قومی اسمبلی چوہدری فرخ الطاف کے وکیل خالد اسحاق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا میں ارکان پر پہلے ہی منحرف کا ٹھپہ لگادیا گیا۔ نا اہلی ریفرنسز میں پارٹی پالیسی خلاف ورزی کے شواہد نہیں۔ چوہدری فرخ الطاف آج بھی پی ٹی آئی کے رکن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شوکاز نوٹس ہمیں نہیں بھجوایا گیا البتہ سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا گیا۔ ممکنہ طور پر پارٹی پالیسی سے انحراف کے الزام پر رکن کو نا اہلی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پی ٹی آئی نے ثابت کرنا ہے کہ چوہدری فرخ الطاف نے آرٹیکل 63 ون (اے) کی خلاف ورزی کی ہے۔
عدالت نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا اور شام چار بجے فیصلہ سناتے ہوئے قاسم سوری کی طرف سے بھجوایا گیا ریفرنس خارج کردیا اور کہا کہ آئین کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور 63 اے کے مطابق ان ارکان کو ڈی سیٹ نہیں کیا جاسکتا۔
اس بارے میں فیصلے کا صرف آپریٹنگ حصہ عدالت میں سنایا گیا جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں ویب سائٹ پر جاری کیا جائے گا۔
تحریکِ انصاف کا ردعمل
سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹ کی کہ جس طرح کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے آج کیا ایسے فیصلوں سےادارے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں ۔
پس منظر
سابق وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد ان کے 20 ارکان نے سندھ ہاؤس میں حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد حکومت نے ان ارکان کے خلاف 14 اپریل کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ریفرنس بھجوایا تھا۔
اس ریفرنس میں پی ٹی آئی کے راجہ ریاض،نور عالم خان،فرخ الطاف ، احمد حسین ڈیہڑ، رانا قاسم نون، غفار وٹو،مخدوم سمیع الحسن گیلانی، مبین احمد، باسط بخاری،عامر گوپانگ، اجمل فاروق کھوسہ، ریاض مزاری، جویریہ ظفر، وجیہہ قمر، نزہت پٹھان، رمیش کمار، عامر لیاقت حسین،عاصم نزیر،نواب شیر وسیر اور افضل ڈھانڈلہ کو منحرف قرار دیتے ہوئے انہیں ڈی سیٹ کرنے کا کہا گیا تھا۔
اس ریفرنس کے خارج ہونے کے بعد یہ ارکان اپنی نشستوں پر برقرار رہیں گے اور بدستور قومی اسمبلی کا حصہ ہوں گے، تاہم پاکستان تحریک انصاف نے اس حوالے سے سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کیا ہے۔