خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقے ضلع کرم میں پولیس نے چھ افراد کو نایاب تیندوے کو مارنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔
سوشل میڈیا پر مرے ہوئے تیندوے کی تصویریں وائرل ہونے کے بعد کوہاٹ کے محکمۂ تحفظِ جنگلی حیات کی ٹیم نے علاقے کا دورہ کیا جس کے بعد انہوں نے متعلقہ افراد کے خلاف رپورٹ درج کی۔
یاد رہے کہ گزشتہ چند ماہ میں خیبر پختونخوا میں تین نایاب تیندوے مقامی افراد نے ہلاک کر چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ فارسٹ افسر وائلڈ لائف کوہاٹ ریجن صمد وزیر نے بتایا کہ یہ واقعہ پارہ چنار کی حدود میں چند روز قبل پیش آیا تھا۔
ان کے مطابق ابھی تک وائلڈ لائف کا سیٹ اپ سابقہ قبائلی علاقہ جات میں نہیں ہے اس لیے ان کی سربراہی میں کوہاٹ سے ٹیم نے وہاں کا دورہ کیا اور ملوث افراد کے خلاف مقامی عمائدین کی موجودگی میں کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ملوث افراد نے بتایا تھا کہ انہوں نے دانستہ طور پر تیندوے کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ وہ اپنے شکاری کتوں کے ہمراہ جنگلی سور کا تعاقب کر رہے تھے کہ اچانک تیندوے نے ان پر حملہ کر دیا۔ جس کے بعد ان کے 20 کے قریب کتوں نے اس کے ساتھ لڑائی شروع کر دی۔ اس لڑائی میں ان کے کتے بھی شدید زخمی ہوئے۔
صمد وزیر کے مطابق نایاب تیندوے کو مارنے کے جرم میں چھ مقامی باشندوں کو ڈیڑھ لاکھ جرمانے کا کہا گیا جو ادا کرنے سے انہوں نے انکار کیا جس کے بعد ان کے خلاف رپورٹ درج کی گئی۔ اب یہ چھ افراد جرمانے کی رقم دینے پر راضی ہو گئے ہیں اور جرمانہ ادا کرنے کے بعد ان کی رہائی ممکن ہو پائے گی۔
دوسری ورلڈ وائلڈ لائف (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کےخیبر پختونخوا کے مینیجر سید کامران حسین کا کہنا تھا کہ تیندوا ایک شرمیلا جانور ہے۔ وہ کبھی بھی انسانوں پر حملہ نہیں کرتا۔ لیکن اب موسمیاتی تبدیلی کے باعث ان کی خوراک میں کمی آ گئی ہے اور وہ خوراک کی تلاش میں آبادیوں تک آ پہنچتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کامران حسین نے بتایا کہ آجکل ایک عام طریقہ کار ہے کہ سیاح بندروں وغیرہ کو سڑک کنارے خوراک مہیا کرتے ہیں۔ چوں کہ تیندوے کی خوراک میں بندر بھی شامل ہے تو جب بندر جنگل سے آبادی کے قریب پہنچتے ہیں۔ ایسے میں تیندوے بھی ان کے تعاقب میں آبادی کا رُخ کرتے ہیں۔ جہاں اس کا سامنا مقامی آبادی کے مال مویشی جیسے بھیڑ بکری سے ہو جاتا ہے اور آخر کار نتیجہ مقامی آبادی کی لاعلمی کے باعث تیندوے کی موت کی صورت میں ہوتا ہے۔
کامران حسین کا کہنا تھا کہ انہوں نے خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں جیسے گلیات اور چترال میں کچھ پالیسیاں مرتب کی ہیں جہاں لوگوں کو نایاب جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں بتایا گیا ہے جس پر وہ عمل بھی کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق ان علاقوں میں لوگوں کو مال مویشیوں کو بہت قلیل فیس کے ذریعے بکریوں اور بھیڑ کی انشورنس کرنے کے بارے میں بتایا گیا ہے تاکہ کامن لیپرڈ یا نایاب تیندوے کے حملے کی صورت میں ان کو مناسب معاوضہ دیا جا سکے۔ ان افراد کے لیے علاقے میں مویشیوں کی فری ویکسینیشن کا بھی اہتمام کیا گیا ہے کیوں کہ بہت سارے جانور مختلف بیماریوں کے باعث بھی ہلاک ہو جاتے ہیں۔
کامران حسین نے مزید کہا کہ وائلڈ لائف کے محکمے کی بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ جنگلی حیات سے انسانوں کا سامنا نہ ہو کیوں کہ 2005 میں گلیات کے مقام پر ایک مادہ تیندوے نے چھ خواتین پر حملہ کر کے انہیں ہلاک کر دیا تھا جو کہ پاکستان کی تاریخ کا ایسا پہلا کیس تھا۔ جس کے بعد اس مادہ تیندوے کو محکمے نے پکڑ لیا تھا تاکہ اس قسم کے دیگر واقعات کو روکا جا سکے۔
خیبر پختونخوا میں گزشتہ چند ماہ میں تیندوؤں کی ہلاکت کے کیسز رونما ہو چکے ہیں۔ جن میں حالیہ پارہ چنار کے علاوہ درہ آدم خیل، سوات اور گلیات میں واقعات ہوئے ہیں۔
ڈسٹرکٹ فارسٹ افسر وائلڈ لائف کوہاٹ ریجن صمد وزیر کے مطابق سابقہ قبائلی علاقہ جات میں تیندوؤں کا سروے نہیں ہوا ہے تاہم یہ نایاب جانور زیادہ تر گلیات اور نظام پور کے پہاڑوں میں پایا جاتا ہے۔