|
اسلام آباد__سپریم کورٹ آف پاکستان میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس معاملے پر بنائے گئے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے رپورٹ کا مقصد سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو کلین چٹ دینا تھا۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اگر فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جاتا تو شاید نو مئی کا واقعہ بھی نہ ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ دھرنے سے پاکستان کا کتنا نقصان ہوا، کسی کو پروا ہی نہیں۔ آگ لگاؤ، مارو، یہ اب کچھ لوگوں کا حق بن گیا ہے۔ جب پاکستان بنا تو بتائیں کہ کہیں کسی نے آگ لگائی تھی؟ یہاں ہر جگہ بس آگ لگا دو والی بات ہے۔
پیر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت کی جس میں اس دھرنے سے متعلق بنائے گئے انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔
سماعت میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کمیشن کو معلوم ہی نہیں ان کی ذمے داری کیا تھی۔ انکوائری کمیشن نے فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ تیار کردی۔
آئی ایس آئی کا کردار
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے کمیشن کو بتایا کہ مالی معاونت کے معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمے داری نہیں۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر ان کی ذمے داری نہیں تو پھر یہ کس کی ذمے داری ہے؟ رپورٹ کے ایک پیراگراف میں کہہ رہے ہیں مالی معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمے داری نہیں۔ دوسرے پیراگراف میں لکھ رہے ہیں کہ ٹی ایل پی کی مالی معاونت کے ثبوت نہیں ملے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ڈی جی سی آ کر کہہ گیا کہ میرا یہ مینڈیٹ ہی نہیں۔ یہ مینڈیٹ نہیں تو پھر رپورٹ میں لکھنا چاہیے تھا۔ آپ آؤٹ آف وے جا کر ان کا ذکر کر رہے ہیں، پھر آپ آؤٹ آف وے جا کر ان کو بری کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن کہہ رہا ہے جو کر رہے تھے وہ ذمے دار نہیں بلکہ پنجاب حکومت ذمے دار ہے۔ پنجاب حکومت رانا ثناءاللہ چلا رہے تھے وہی ذمے دار ہیں۔ کمیشن نے یہ نہیں بتایا کہ حلف کی خلاف ورزی کس نے کی۔ کمیشن کیسے کہہ سکتا ہے کہ مظاہرین کو پنجاب میں روکنا چاہیے تھا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کمیشن کو کس بات کا خوف تھا؟ انکوائری کمیشن کو لگتا ہے پنجاب حکومت سے کوئی بغض ہے۔ ساری رپورٹ پنجاب حکومت کے خلاف لکھ دی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ بلوچستان میں آئی ایس آئی کے کہنے پر امپورٹر ایکسپورٹر کے شناختی کارڈ بلاک کیے گئے۔ یہاں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کا مینڈیٹ ہی نہیں۔
’کمیشن کی رپورٹ سے مایوسی ہوئی‘
چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کو فیض آباد دھرنے سے کتنا نقصان ہوا، سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھیں۔ مارو، جلاؤ گھیراؤ کرو اور چلے جاؤ۔ یہ کیا طریقہ کار ہے؟ مجھے تو انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر مایوسی ہی ہوئی ہے۔ کہتے ہیں بس آگے بڑھو۔ ماضی سے سیکھے بغیر کیسے آگے جا سکتے ہیں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کمیشن نے کسی چیز پر کوئی فائنڈنگ نہیں دی۔ آپ لوگوں کا تو کام تھا کہ ذمے دار کا تعین کریں، انکوائری کمیشن نے پارلیمان اور عدالت کی پاور لی مگر جو کام کرنا تھا وہ نہیں کیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کمیشن رپورٹ سے متعلق اعتراف کیا کہ اس میں کوئی سفارشات نہیں ہیں۔
اس پر جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ کمیشن نے سارا نزلہ پنجاب حکومت پر گرایا ہے۔
نظرِثانی کی درخواستیں کس نے واپس کرائیں؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن کہہ رہا ہے قانون موجود ہیں ان پر عمل کر لیں۔ یہ کہنے کے لیے کیا ہمیں کمیشن بنانے کی ضرورت تھی؟ اگر 2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو نو مئی کا واقعہ بھی شاید نہ ہوتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیشن نے لکھا کہ سب نے نظرِ ثانی درخواستیں اتفاق سے دائر کیں اور اپنی وجوہات پر واپس لیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کمیشن والے لوگ پتا نہیں پولیس میں کیسے رہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ چور سے پوچھ لیا کہ چوری تو نہیں کی؟ درخواستیں دائر کرنے والے سب لوگوں سے پوچھ تو لیتے۔ کیا خوب صورت اتفاق تھا کہ اتنی نظرِ ثانی درخواستیں ایک ساتھ دائر ہوئیں۔ کسی نے تو اس کی منظوری دی ہوگی، وکیل کیا ہوگا۔ سارا ریکارڈ کہاں ہے؟
’تحریک لبیک سے کسی کا بیان نہیں لیا گیا‘
دھرنا تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پڑھتے ہوئے اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے کہا کہ رپورٹ میں تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے کسی نمائندے کا بیان نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا کمیشن نے ٹی ایل پی کی طرف سے کسی کو بلایا؟ شاید ٹی ایل پی والے ہی کمیشن کی معاونت کر دیتے۔ ٹی ایل پی کو بلاتے ہوئے شاید کمیشن کے ارکان کو ڈر لگ رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جن سے متعلق انکوائری کر رہے تھے ان کا مؤقف لے لیتے۔ رانا ثنا اللہ کا لکھ دیا کہ وہ پنجاب حکومت کی کمیٹی کے سربراہ تھے اور کچھ نہیں کیا۔ شاید انکوائری کمیشن کو رانا ثنا اللہ سے کوئی مسئلہ تھا۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کو بھی نہیں بلایا گیا جن کے پاس سے اسلحہ برآمد ہوا اور صرف اتنا لکھا کہ اس معاملے پر تحقیقات ہونی چاہیئں کہ اسلحہ کون لے کر آیا تھا۔
’فیض حمید نے فتویٰ دیا اور سب نے مان لیا‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیض حمید نے بیان میں کہا کہ آئی ایس آئی نے دھرنے کے لیے فنڈنگ نہیں کی۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فیض حمید نے یہ فتویٰ دیا اور کمیشن والوں نے مان لیا۔ کیا فیض حمید کو ذاتی حیثیت میں بلایا گیا تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ انکوائری کمیشن نے فیض حمید کو سوال نامہ بھیجا تھا جس کا جواب آیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انکوائری کمیشن نے فیض حمید کو بلانے کی جرأت تک نہیں کی؟ کمیشن نے تو اپنے فیصلے میں فیض حمید کا نام تک نہیں لکھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن کو جو کام دیا وہ نہیں کیا۔ باقی پورے پاکستان کو ٹھیک کرنے کی باتیں لکھ دیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کمیشن والوں کو انکوائری کے لیے کوئی رقم بھی دی گئی؟
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اصل رقم ابھی نہیں بتا سکتا مگر ان کو ادائیگی کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کمیشن والوں کو جواب کے لیے بلایا جائے؟ کیا وفاقی حکومت اس رپورٹ کو قبول کرتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اس پر وفاقی حکومت سے ہدایات لوں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کسی کو سنے بغیر رد نہیں کرنا چاہتے۔ کمیشن کو بھی نوٹس کر کے سن لیتے ہیں۔ حکومت سے پوچھ کر بتائیں کیا کمیشن رپورٹ ٹی او آرز کے مطابق ہے؟
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ کمیشن نے ابصار عالم کا بیان حلف پر لیا جب کہ فیض حمید سے حلف پر بیان نہیں لیا گیا۔
کمرۂ عدالت میں موجود ابصار عالم نے عدالت سے استفسار کیا کہ کیا کمیشن رپورٹ پبلک ہوگی؟ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ سپریم کورٹ میں آ چکی ہے۔ اب سرکار جانے پبلک کرنی ہے یا نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت رپورٹ کا جائزہ لے کر رائے دے گی۔ اس کے بعد ہی پبلک کرنے کا فیصلہ ہوگا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ وفاقی حکومت نے ہمارے فیصلے کی روشنی میں قانون سازی کیوں نہیں کی۔ کیا ایک اور نو مئی کا انتظار ہو رہا ہے؟ اگر آپ پہلے قانون سازی کے لیے چوکنے ہوتے تو نو مئی نہ ہوتا۔
رپورٹ پر حکومتی رائے کے لیے دو ہفتے کا وقت
چیف جسٹس نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں پیر کی سماعت کے حکم نامے میں کہا کہ کمیشن نے چھ مارچ کو 149 صفحات اور سات والیمز پر مشتمل رپورٹ جمع کرائی تھی جو ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق نہیں۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ حیرانگی کی بات ہے کہ ٹی ایل پی کے کسی رکن کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ کمیشن نے فرض کر لیا کہ احتجاج کے لیے اسلام آباد کا سفر آئین کے مطابق نہیں تھا۔ سپریم کورٹ کے حکم نامے میں لکھا تھا پرامن احتجاج حق ہے۔ کمیشن کی رپورٹ میں صوبائیت کی جھلک نظر آتی ہے۔
حکم نامے میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ وہ رپورٹ عام کرنا چاہتی ہے یا نہیں؟ الیکشن کمیشن نے اپنی سر بمہر رپورٹ پیش کر دی ہے۔ اٹارنی جنرل نے رپورٹ پر حکومتی ردِ عمل سے آگاہ کرنے کے لیے دو ہفتے کا وقت مانگا ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ کمیشن کے ارکان چاہیں تو وہ عدالت کی ابتدائی آبزرویشنز پر اپنا ردِعمل دے سکتے ہیں۔
فیض آباد انکوائری کمیشن کا پس منظر
گزشتہ برس 15 نومبر کو پاکستان کی نگراں حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق انکوائری کمیشن تشکیل یا تھا جسے دو ماہ میں اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرنا تھی۔
خیبر پختونخوا کی پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) سید اختر علی شاہ کی سربراہی میں بنائے گئے کمیشن میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ خوش حال خان اور سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد پولیس شامل تھے۔
یہ کمیشن اس وقت بنایا گیا تھا جب اکتوبر 2023 میں فیض آباد دھرنا عمل در آمد کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی مسترد کر دی تھی۔
واضح رہے کہ نومبر 2017 میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے جنکشن فیض آباد کے مقام پر تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے دھرنے پر کیس کا فیصلہ نومبر 2018 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے محفوظ کیا تھا۔ بعد ازاں اس از خود نوٹس کیس کو سپریم کورٹ نے 2019 میں نمٹا دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جینس ایجنسیوں اور فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔
ٹی ایل پی نے یہ دھرنا مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں انتخابی امیدواروں کے حلف نامے میں تبدیلی کے بعد دیا گیا تھا۔ نامزدگی سے متعلق نئے فارم میں ختم نبوت سے متعلق لفظ اوتھ یعنی حلف کو 'ڈکلیئر' کے لفظ سے تبدیل کیا گیا تھا۔
اس تبدیلی کے خلاف ٹی ایل پی نے 22 روز تک فیض آباد کے مقام پر دھرنا سے کر اس کو بند رکھا تھا۔
بعد ازاں فوج کی ثالثی سے ایک معاہدے کے تحت اُس وقت کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے وفاقی وزیرِ قانون زاہد حامد سے استعفیٰ لے لیا تھا۔
اس معاہدے پر ملک کی طاقت ور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل فیض حمید کے دستخط موجود تھے۔
فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن، پیمرا، تحریکِ انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی مسلم لیگ سمیت نو فریقین نے نظرِ ثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔
تاہم چار سال کے وقفے کے بعد جب اس کیس کی 28 ستمبر 2023 کو پہلی سماعت ہوئی تو بیش تر درخواست گزاروں نے اپنی درخواست واپس لے لی تھیں۔
فورم