عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے تدارک کی نگرانی کرنے والے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا چار روزہ اجلاس فرانس کے دارالحکومت پیرس میں شروع ہو گیا ہے۔
اس اجلاس میں پاکستان کے لیے تجویز کردہ 27 نکاتی ایکشن پلان پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے گا۔
پاکستان کے حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایف اے ٹی ایف کے 27 میں سے 26 نکات پر مکمل یا کافی حد تک عملدرآمد کر لیا ہے لہذا وہ پرامید ہیں کہ اِن اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ سے نکال دیا جائے گا۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تیکنیکی بنیادوں پر پاکستان کو نگرانی کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ آئندہ اجلاس تک مؤخر کیا جاسکتا ہے۔
عالمی تنظیم کے 21 سے 25 جون تک پیرس میں جاری رہنے والے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے یا برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
پاکستان کے مالیاتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ماہرین پر مشتمل وفد ویڈیو لنک کے ذریعے ایف اے ٹی ایف اجلاس کو اپنے اقدامات سے آگاہ کرے گا۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر عمل درآمد سے متعلق کارکردگی اطمینان بخش ہے اور حکومت اپنے اقدامات کی بنیاد پر گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے پرامید ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر عمل درآمد کیا ہے۔
دفتر خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پیش رفت کو ایف اے ٹی ایف اور عالمی برادری نے بھی سراہا ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ وہ ایف اے ٹی ایف اجلاس کے فیصلے سے پہلے اس کے نتیجے پر بات کرنے کے بجائے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان انسدادِ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے عالمی ذمے داریوں کو نبھاتا رہے گا۔
’گرے لسٹ میں برقرار رکھا جاسکتا ہے‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عالمی سیاست کی ضروریات کے تحت پاکستان کی قابلِ قدر کارگردگی کے باوجود اسے گرے لسٹ میں برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
سابق وزیر خزانہ اور وفاقی حکومت کی معاشی مشاورتی کونسل کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے تدارک کے لیے پاکستان کی کارگردگی بہت اچھی ہے اور قانون سازی سمیت ایف اے ٹی ایف کے تجویز کردہ ایک دو کے سوا تمام نکات پر عمل درآمد کرلیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اگر کارگردگی کی بنیاد پر دیکھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھا جائے۔ اگر پھر بھی گرے لسٹ میں برقرار رکھا جاتا ہے تو یہ عالمی سیاست کے تقاضوں کے تحت پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لیے ہو گا۔
اشفاق حسن کہتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف جس تیزی سے سامنے آیا ہے اور جو اختیارات اسے دیے گئے ہیں اس سے بہت حد تک واضح ہے کہ یہ ادارہ عالمی سیاست کا ایک آلہ ہے۔
'ناکافی سفارت کاری'
پاکستان نے اپنے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے عالمی تنظیم کو اپنا وفد اسلام آباد بھیجنے کی پیش کش بھی کر رکھی ہے۔
پیرس میں مقیم ایف اے ٹی ایف کی کوریج کرنے والے صحافی یونس خان کہتے ہیں کہ جائزہ رپورٹ پر پاکستان کو سراہا جائے گا مگر امکان یہی ہے کہ اسے مزید چار ماہ تک گرے لسٹ میں رکھا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے خاطر خواہ سفارت کاری نہیں کی بلکہ امریکہ اور چین پر زیادہ انحصار کیے رکھا ہے جب کہ یورپی ممالک کو عالمی تنظیم کی فیصلہ سازی میں کلیدی کردار حاصل ہے۔
یونس خان کے مطابق پاکستان کو امید ہے کہ افغانستان سے انخلا سے پیدا ہونے والی صورتِ حال میں امریکہ اور نیٹو ممالک ایف اے ٹی ایف میں اس کی مدد کریں گے تاہم ان کے بقول فرانس کے پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات بھی ایف اے ٹی ایف پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پیرس اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اسلام آباد کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
ایف اے ٹی ایف پر نظر رکھنے والے صحافی یونس خان کہتے ہیں کہ ماضی کے برعکس حالیہ اجلاس میں بھارت بھی پاکستان کے خلاف سرگرم دکھائی نہیں دیتا۔
اجلاس کے فیصلوں سے متعلق ایف اے ٹی ایف کے صدر ورچوئل اجلاس کے اختتام پر 25 جون کو پریس کانفرنس کریں گے۔
یاد رہے کہ پاکستان کو جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں 27 نکاتی ایکشن پلان تجویز کیا گیا تھا۔
پاکستان نے کیا اقدامات کیے؟
پاکستان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ تنظیم کے تجویز کردہ نکات کی روشنی میں ضروری قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے لیے ایک مؤثر نظام تیار کر لے گا۔
پاکستان کی پارلیمنٹ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کی روک تھام سے متعلق متعدد قوانین میں ضروری ترامیم کی منظوری دے چکی ہے۔
اس ضمن میں پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے وفاقی سطح پر 11 جبکہ صوبائی اسمبلیوں سے تین بل منظور کروائے ہیں۔
کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے وابستہ افراد کی سرگرمیاں روکنے کے لیے بھی اقدامات کے دعوے کیے گئے ہیں۔
رواں سال فروری میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کی کارگردگی کو سراہتے ہوئے عالمی ادارے کی جانب سے تجویز کردہ 27 سفارشات میں سے تین پر مزید کام کرنے کو کہا گیا تھا۔
تنظیم نے آئندہ اجلاس تک زیر نگرانی یعنی 'گرے لسٹ' میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان کو جون 2021 تک تمام سفارشات پر عمل کرنے کا وقت دیا تھا۔