بھارت کے مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ کے نسلی فسادات کی شکار ریاست منی پور کے دورے سے قبل جھڑپوں میں مزید پانچ افراد ہلاک ہو گئے ہیں جس کے بعد ریاست میں شورش کے دوران اموات کی تعداد 80 ہو گئی ہے۔
بھارتی نشریاتی ادارے ’ این ڈی ٹی وی‘ کی رپورٹ کے مطابق منی پور کے علاقوں سیروو اور سوگونو میں شرپسندوں نے کئی گھروں کو آگ بھی لگائی۔
گھروں کو آگ لگانے والے افراد خود کار ہتھیاروں سے لیس تھے۔ قبل ازیں ریاست کے وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ نے ایک بیان دیا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے کچھ دن میں مختلف کارروائیوں میں 40 دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ہلاک دہشت گروں کے پاس انتہائی خود کار رائفلیں تھیں جن میں اے کے 47 اور ایم 16 شامل ہیں۔ جب کہ وہ اسنائپر کا استعمال بھی کر رہے تھے۔ یہ دہشت گرد حملوں میں عام آبادیوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔
واضح رہے کہ مرکزی وزیرِ داخلہ امت شاہ پیر کو منی پور کا دورہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے منی پور کی متحارب نسلی اکائیوں سے پر امن رہنے کی اپیل بھی کی ہے۔ ان قبائل کے سرکردہ رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کر چکے ہیں تاکہ ریاست میں امن عامہ کی صورتِ حال کو بہتر کیا جا سکے۔
منی پور میں رواں ماہ نسلی تشدد کے پھوٹنے کے بعد کشیدگی عروج پر ہے جس میں کئی درجن افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔
منی پور میں نسلی فسادات ریاست کی اکثریتی آبادی والے قبیلے میتی اور پہاڑوں پر آباد قبیلے کوکی کے درمیان ہو رہے ہیں۔ ’اے ایف پی‘ کے مطابق میتی قبیلے کے زیادہ تر آبادی ہندوؤں پر مشتمل ہے جب کہ کوکی قبیلے کی اکثریت مسیحی ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ریاست کے وزیرِ اعلیٰ بیرن سنگھ کا کہنا ہے کہ امن عامہ کے لیے فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے سخت کارروائی شروع کر دی ہے۔
’اے ایف پی‘ نے فوجی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ اتوار کو مسلح شرپسند خالی گھروں کو آگ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب انہیں روکنے کی کوشش کی گئی توانہوں نے فورسز پر فائرنگ کر دی جس کے بعد وہ جوابی فائرنگ میں وہ مارے گئے۔
بھارت کی شمال مشرق کی دور دراز ریاستیں، جو بنگلہ دیش، چین اور میانمار کے درمیان واقع ہیں، طویل عرصے سے مختلف نسلی گروہوں کے درمیان تناؤ کا مرکز رہی ہیں۔
مئی کے اوائل میں منی پور میں شروع ہونے والا پر تشدد واقعات سے ریاست کے دارالحکومت امپھال سمیت آس پاس کے علاقے متاثر ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق زیادہ متاثرین کوکی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے کچھ گاؤں اور گرجا گھروں کو شرپسندوں نے تباہ کیا ہے جس کا الزام وہ میتی قبیلے کے ہجوم پر لگا رہے ہیں۔یہ رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ بعض مقامات پر میتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ فسادات ایسے وقت میں شروع ہوئے تھے جب یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ میتی قبیلے کے افراد کو سرکاری ملازمتوں سمیت دیگر مراعات میں خصوصی کوٹا دیا جا سکتا ہے جس پر کوکی قبیلے کے افراد نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔
کوکی قبائل کو طویل عرصے سے یہ خدشہ بھی ہےکہ میتی برادری کو ان علاقوں میں بھی زمین حاصل کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے جو فی الحال کوکی قبیلے سمیت دیگر قبائلی گروہوں کے لیے مختص ہے۔
فسادات کے بعد ہزاروں فوجی اور نیم فوجی دستوں کو نظم و نسق کی بحالی کے لیے تعینات کیا گیاہے جب کہ موبائل فون انٹرنیٹ کئی ہفتوں سے بند ہے۔
منی پور کی غیر قبائلی آبادیوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں قبائل کا درجہ دیا جائے تاکہ ان کی آبائی زمین، ثقافت اور شناخت کو قانونی تحفظ مل سکے۔
دوسری جانب اس مطالبے کے خلاف منی پور کے قدیم قبائل کی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں۔
میتی کمیونٹی منی پور ریاست کی کل آبادی کا 53 فی صد ہے ۔ اس قبیلے کا دعویٰ ہے کہ انہیں میانمار اور بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں آنے والے تارکینِ وطن کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔
موجودہ قانون کے تحت میتی کمیونٹی کو منی پور کے پہاڑی علاقوں میں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔
ریاست منی پور کی مشرقی سرحد بھارت کے پڑوسی ملک میانمار سے ملتی ہے اور اس ریاست کو ایک حساس سرحدی ریاست تصور کیا جاتا ہے۔ اس ریاست کے پڑوس میں ناگالینڈ، میزورام اور آسام کی ریاستیں ہیں۔
اس خبر میں بعض معلومات خبر رساں ادارے ’ اے ایف پی‘ سے شامل کی گئی ہیں۔