رسائی کے لنکس

'لوگ راشن کا جھانسا دے کر ساتھ چلنے کا کہتے ہیں'


سیلاب سے متاثرہ خواتین اور بچے جنہیں گھر بار سے محروم ہونا پڑا۔
سیلاب سے متاثرہ خواتین اور بچے جنہیں گھر بار سے محروم ہونا پڑا۔

"میری بیٹی جب مجھے ملی تو اس کی حالت بہت بری تھی، میں اسے رکشے میں بٹھا کر سرکاری اسپتال لے گئی جہاں ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ میری بچی اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنی تھی۔"

یہ کہنا ہے فاطمہ کا جوسیلاب کے بعد شکار پور کے تعلقہ گڑھی یاسین گوٹھ سے کراچی اپنے حالات بہتر کرنے کی غرض سے پہنچیں تھی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فاطمہ نے بتایا کہ وہ بیوہ اور چھ بچوں کی ماں ہیں۔ ریپ کا شکار ہونے والی ان کی بیٹی کی عمر 10 برس ہے جو اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہے۔

واقعہ کے روز فاطمہ کی بیٹی بھیک مانگنے نکلی تھی جہاں ایک نامعلوم گاڑی میں سوار دو افراد نے اسے راشن دینے کا جھانسہ دے کر گاڑی میں بٹھایا اور پھر ایک سنسان جگہ پر زیادتی کا نشانہ بنایا۔ بعد ازاں وہ متاثرہ بچی کو کلفٹن ڈالمن مال کے قریب چھوڑ کر چلے گئے۔

فاطمہ کے بقول "میرا شوہر تین سال پہلے ایڈز کے سبب فوت ہوگیا تھا۔ جب وہ بیمار تھا تب بھی میں ہی بچوں کے لیے کمانے نکلتی تھی۔ میں گھروں میں صفائی کا کام کرتی تھی چھ سے آٹھ ہزار کما لیا کرتی تھی لیکن سیلاب کے بعد زندگی اور مشکل ہوگئی۔ شروع میں امداد کی غرض سے مختلف جگہوں پر بچوں کے ساتھ بیٹھی لیکن جب فاقے آئے تو یہ فیصلہ کیا کہ شہر آجاؤں۔"

متاثرہ بچی کی والدہ نے بتایا کہ کراچی میں ہمارا کوئی نہیں تو یہاں پہنچ کر عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے باہر بیٹھ گئی۔ بچے لنگر سے کھانا کھا کر پیٹ بھر لیتے ہیں۔ پیسے کی ضرورت تو بحرحال ہے اسی لیے بچے بھیک مانگنے نکل گئے تھے۔ لیکن ایسا ہو جائے گا اس کا سوچا بھی نہ تھا۔

پاکستان میں سیلاب کے باعث تقریباً ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ فائل
پاکستان میں سیلاب کے باعث تقریباً ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ فائل

سیلاب سے متاثرہ کم سن بچی کے ساتھ زیادتی کی خبر سے عوام میں خاصا غم و غصہ پایا گیا لیکن یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی سیلاب کے چند روز بعد ہی سندھ کے علاقے عمر کوٹ میں خو اتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کی گئی تھی، جس کے بعد علاقہ مکینوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔

اس کے علاوہ ضلع سانگھڑ میں بھی اسی نوعیت کا واقعہ پیش آیا تھا جب ایک لڑکی کو امداد کا کہہ کر ملزمان کار میں بٹھا کر لے کر گئے اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

سیلاب کے بعد جس طرح مکانات منہدم ہوئے اور کئی کئی فٹ کھڑے پانی کے سبب لوگوں کو اپنا گھر بار، زمین ا ور گاؤں چھوڑ کر نکلنا پڑا ان سب میں خواتین کا تحفظ خاندان کے مردوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکا تھا۔

جھڈو کے رہنے والے 62 سالہ رام دین کا یہ شکوہ تھا کہ وہ اپنے گھر کی عورتوں کو کھلے آسمان تلے کیسے بٹھائے رکھیں؟ سڑک سے ہر شخص کا گزر ہے ان کا سامنا ہماری عورتوں سے ہوتا ہے ہمیں یہ اچھا نہیں لگتا۔

سیلاب کے باعث ہزاروں خاندان اپنے مال مویشیوں کے ساتھ نقل مکانی پر مجبور ہوئے (فائل)
سیلاب کے باعث ہزاروں خاندان اپنے مال مویشیوں کے ساتھ نقل مکانی پر مجبور ہوئے (فائل)

سویتا بھی اپنا گاؤں اور گھر چھوڑ کر چار بچوں کے ہمراہ سڑک کنارے امداد کے لیے محض ایک چارپائی پر آ بیٹھی تھیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "آپ سوچ نہیں سکتیں کہ مجھے یہ سب کتنا برا لگ رہا ہے۔ غیر مردوں کی موجودگی میں اس طرح رہنا ہر آتے جاتے کی ہم پر نظر پڑنا ایک عورت کو کتنا خوف کا احساس دلاتا ہوگا۔ دن تو جیسے تیسے گزر جاتا ہے لیکن رات ہوتے ہی ڈر لگنے لگتا ہے، بس جلدی سے یہ سیلاب کا پانی اترے تو ہم اپنے گاؤں واپس جائیں۔"

ضلع دادو میں ایک غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ سماجی رکن محمد الطاف نے اس بات کی تصدیق کی کہ سیلاب کے بعد جہاں متاثرہ خاندانوں کے لیے امداد کا حصول ایک مشکل مرحلہ تھا وہیں خواتین اور بچیوں کے لیے تحفظ اور محفوظ ماحول کی فراہمی ایک بڑا چیلنج تھا۔

آئے روز یہ خبر یں آ رہی تھیں کہ کچھ خاندانوں کے مرد راشن ڈھونڈنے کے لیے گئے تو کچھ اور مرد ان خواتین سے بات کرنے کے بہانے آ جاتے اور غیر اخلاقی گفتگو کرتے۔

مجھے ایک بوڑھی خاتون نے بتایا کہ ان کی جوان سال بہو جس کی عمر 18 برس ہوگی اسے دو مردوں نے کہا کہ وہ اسے ہفتے بھر کا راشن دیں گے اگر وہ ان کے ڈیرے پر آ کر کھانا بنا دیا کرے۔ اس بات پر ان کی بہو نے اپنی ساس کو بتایا کہ یہ آنے والے مرد کوئی حکومتی نمائندے نہیں بلکہ غلط نیت سے یہاں آئے ہیں۔

الطاف کے مطابق ہر متاثرہ خاندان کے لیے کئی سو کلو میٹر دور قائم کیے گئے ٹینٹ سٹی پہنچنا آسان نہیں تھا اس لیے متاثرہ خاندانوں نے تباہ شدہ گاؤں اور علاقوں کے اطراف میں یا پھر پانی سے محفوظ رہ جانے والی سڑک یا میدان میں عارضی پناہ لی۔ جس کے بعد اس طرح کے متعدد مسائل کا آغاز ہوگیا۔

'اگر تم ساتھ چلو تو میں تمہیں امداد دلا سکتا ہوں'

"مجھے ایک آدمی نے کہا کہ قریب ہی میں امدادی سامان کا ٹرک آیا ہے جس میں پانی، راشن اور کپڑے ہیں۔ اگر تم ساتھ چلو تو میں تمہیں امداد دلا سکتا ہوں۔ ہمارے پاس اس وقت کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا تو میں رضامند ہوگئی اور سوچا کہ ساتھ تین چار اور عورتوں کو لے چلوں، جب میں نے اسے کہا کہ میں اور عورتوں کو بھی کہہ دوں تو اس نے صاف منع کیا اور کہا کہ بس اپنی بڑی بیٹی کو ساتھ لے چلو۔ اس نے جس انداز سے میری بیٹی کو دیکھا اور کہا مجھے وہیں محسوس ہو گیا کہ یہ جھوٹ بول کر لے جارہا ہے۔"

یہ کہنا ہے شریفہ کا جو خیر پور ناتھن شاہ سے نکل کر اپنے خاندان کے ہمراہ دادو آئی تھیں۔

رپورٹنگ کے دوران خواتین سے بات کرتے ہوئے یہ بات سامنے آئی کہ ان کے لیے اس آفت اور اس سے جڑے مسائل کا غم اپنی جگہ ہے لیکن وہ اپنے اور بچوں کے تحفظ کے لیے شدید پریشانی کا شکار ہیں۔

تقریباً ہر عورت کا یہ کہنا تھا کہ انہیں اپنے گھر سے نکل کر یوں کہیں بھی بیٹھنا غیر محفوظ لگ رہا ہے۔ ایک خاتون نے یہ بھی بتایا کہ ان کے خیمے میں رات کے وقت کوئی شخص آیا جس نے انہیں چھونے کی کوشش کی لیکن اندھیرا ہونے کے سبب وہ پہنچان نہیں پائیں کہ وہ شخص کوئی انجان تھا یا سیلاب متاثرین میں سے ہی کوئی تھا۔

مٹیاری سے دور ایک گاؤں میں مرغیوں کے فارم میں عارضی پناہ گاہ قائم تھی جس میں کئی درجن خاندان آباد تھے۔ وہاں موجود حمید نے بتایا کہ "اس وقت یہاں ہندو مسلمان تمام خاندان ٹھہرے ہوئے ہیں اور ہم نے تمام خواتین کے پردے کے لیے اور انہیں کوئی تکلیف پیش نہ آئے اس فارم کے اندر دو حصے مخصوص کردیے ہیں۔ پچھلے حصے میں تمام خواتین اور بچے ٹھہرے ہیں اور آگے ہم سب مرد ہیں تاکہ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آسکے۔"

سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی بے سروسامانی کا نقشہ پیش کرتی ایک تصویر (فائل)
سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کی بے سروسامانی کا نقشہ پیش کرتی ایک تصویر (فائل)


فاطمہ کی بیٹی کے ساتھ کراچی جیسے شہر میں ایسے افسوس ناک واقعے کا پیش آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ جگہ کوئی بھی ہو ایسی مجرمانہ ذہنیت کے حامل لوگ صرف موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔

فاطمہ کی بیٹی کے ساتھ ظلم کرنے والے تو شہر میں موجود کیمروں کی سہولت کے سبب اب قانون کی گرفت میں ہیں لیکن سخت قوانین کے باوجود ایسے واقعات کی روک تھام کانہ ہونا بھی اب ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔

یہ واقعہ تو رپورٹ ہونے کی وجہ سے پولیس کارروائی کا سبب بنا لیکن بہت سے واقعات ایسے ہیں جو سرے سے رپورٹ ہوتے ہی نہیں۔یہاں تک کہ سندھ چائلڈ پروٹیکشن کی ہیلپ لائن 1121 سندھ کے کئی اضلاح میں اب بھی غیر فعال ہے۔

ایک جانب جہاں حکومت کے جاری کردہ اعدادو شمار یہ بتاتے ہیں کہ سیلاب متاثرین کی تعداد تین کروڑ 30 لاکھ کے قریب ہے وہیں اس تعداد میں 40 فی صد بچوں کا ہونا جن کی تعداد ایک کروڑ 30 لاکھ بنتی ہے، اس بات کی نشاندہی ہے کہ آفت نے ان کے مستقبل اور ذہنوں کو بھی شدید متاثر کر رکھا ہے۔

معاشی بدحالی، وسائل کی کمی، بہتر خوراک اوراسکولوں تک رسائی نہ ہونا بھی ان کے اندر احساس محرومی کو جنم دے رہا ہے۔ ان حالات میں کوئی بھی ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان کا استحصال کرسکتا ہے۔

چادر اور چار دیواری کے تحفظ کا احساس اب بری طرح سے سیلاب سے متاثرہ خواتین کو ستا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ تباہ شدہ علاقوں میں جہاں اب پہلے جیسا کچھ بھی نہیں، یہ خواتین ان سب کے باوجود وہاں صرف اس لیے لوٹنا چاہتی ہیں کہ وہ اپنے قبیلے اور برادری کے درمیان رہ کر خود کو کسی حد تک محفوظ تصور کرسکیں۔

XS
SM
MD
LG