پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اس وقت پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ ایک ہی طرف کھڑے ہیں اور اب بھی جنرل باجوہ کی پالیسی ہی چل رہی ہے۔
لاہور میں وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیاء الرحمٰن کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ اب خود تسلیم کر رہے ہیں کہ تحریکِ انصاف کی حکومت اُنہوں نے گرائی، لہذٰا فوج کے اندر ان کے خلاف انکوائری ہونی چاہیے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اگر حکومت انہیں گرفتار کرتی ہے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ اُن پر قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے جس کے بعد اُنہیں دوسری زندگی ملی ہے۔ لیکن اُن کی گرفتاری پر جو ردِعمل آئے گا، اسے کوئی نہیں سنبھال سکے گا۔
عمران خان نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ مجھے نااہل کرا کر جیل میں ڈال دیا جائے، کیوں کہ یہ سب خوف زدہ ہیں کہ جب بھی انتخابات ہوں گے تو یہ ہار جائیں گے۔
'جنرل باجوہ کے خلاف فوج کے اندر انکوائری ہونی چاہیے'
ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ اب خود تسلیم کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت اُنہوں نے گرائی۔ وہ خود اب یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ 'رجیم چینج' آپریشن اُنہوں نے کرایا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ "ان (جنرل باجوہ) کے اُوپر فوج کے اندر انکوائری ہونی چاہیے کہ اُنہوں نے جو تکبرانہ باتیں کیں جیسے کہ وہ معیشت کے بڑے ماہر تھے کہ میں نے یہ فیصلہ کیا، لہذٰا فوج کے اندر اس پر انکوائری ہونی چاہیے۔"
سابق وزیرِ اعظم نے کابینہ اجلاس میں سعودی ولی عہد سے متعلق نازیبا زبان استعمال کرنے کے الزام کی بھی تردید کرتے ہوئے اسے جھوٹ قرار دیا۔
خیال رہے کہ کالم نویس جاوید چوہدری نے جمعرات کو سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کا احوال بیان کیا تھا۔ جاوید چوہدری کے کالم کے مطابق جنرل باجوہ نے اُنہیں بتایا کہ عمران خان کی حکومت ملک کے لیے خطرناک تھی اور معیشت بیٹھ رہی تھی۔
کالم میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جنرل باجوہ نے یہ بھی بتایا کہ عمران خان نے کابینہ اجلاس کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو پنجابی میں کچھ نازیبا الفاظ کہے تھے جس کا تذکرہ اُنہی کی کابینہ کے ایک وزیر نے سعودی سفیر سے کر دیا تھا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ "یوں لگتا ہے کہ جنرل باجوہ اَب صفائیاں دے رہے ہیں۔ لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اُنہوں نے سازش کر کے جو عمران خان کی حکومت گرائی وہ فیصلہ ٹھیک تھا۔ یہ ایک بڑا سوال ہے کہ ایک آرمی چیف کے پاس اتنی طاقت ہونی چاہیے کہ وہ ایک منتخب حکومت کو ختم کر سکے?"
'پارلیمانی نظام میں اصلاحات کرنا مشکل ہوتا ہے'
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کی یہ سوچ نہیں ہے کہ ملک میں صدارتی نظام ہو، لیکن پارلیمانی نظام میں جب کوئی اصلاحات کرنی ہوں تو ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔
اُن کے بقول جب تک پارلیمنٹ میں واضح اکثریت نہ ہو اس وقت تک اصلاحات کرنا مشکل ہوتاہے۔
'لگتا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن ہو جائیں گے'
عمران خان کا کہنا تھا کہ جس طرح کی خبریں عدالتوں سے آ رہی ہیں، لگتا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز کے اندر الیکشن ہو جائیں گے اور اگر ایسا ہوا تو پورے ملک میں بھی الیکشن ہو جائیں گے۔ لیکن ان حالات میں جس طرح کا نگران سیٹ اپ ہے اور جانب دار حکومتیں ہیں، ایسے میں الیکشن تو ہو سکتے ہیں، لیکن شفاف الیکشن نہیں ہو سکتے۔
سابق وزیرِ اعظم نے ایک بار پھر دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کی یہ پالیسی کامیاب رہی ہے۔
'حالیہ دہشت گردی پر مجھے موردِ الزام ٹھہرانا بے بنیاد ہے'
سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ حالیہ دہشت گردی پر اُنہیں موردِ الزام ٹھہرانا ایک بے بنیاد الزام ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ 2021 میں اُنہوں نے جنرل باجوہ کو خبردار کیا تھا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کا اثر پاکستان پر پڑے گا، لہذٰا ہمیں تیاری کرنی چاہیے۔ لیکن ہم بچ گئے کیوں کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی ہوتی تو پاکستان پر اس کے زیادہ اثرات پڑنے تھے۔
سابق وزیرِ اعظم بولے کہ ہمیں خدشہ تھا کہ افغان طالبان کے آنے کے بعد کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) نے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ پاکستان آ جانا تھا جو 30، 40 ہزار لوگ بنتے تھے۔ لہذٰا ہم نے سوچا کہ اگر وہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر ان کی پاکستان میں آباد کاری نہ کی تو اس کے برے اثرات آئیں گے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اس دوران ہماری حکومت چلی گئی اور یہ معاملہ بڑھتا گیا اور اب خیبرپختونخوا کے لوگوں کو یہ خوف ہے کہ پھر پہلے کی طرح دہشت گردی نہ شروع ہو جائے۔
'لگتا ہے کہ بائیڈن، افغانستان میں ناکامی کا پاکستان کو ذمے دار سمجھتے تھے'
امریکہ کے صدر جو بائیڈن سے بطور وزیرِ اعظم رابطہ نہ ہونے پر عمران خان بولے کہ اُنہیں لگتا ہے کہ جو بائیڈن افغانستان میں امریکہ کی ناکامی کا ذمے دار پاکستان کو سمجھتے تھے۔ یہ تاثر اُن کی حکومت میں بھی تھا جس کی وجہ سے وہ محتاط تھے اور اسی وجہ سے اُن کے ساتھ رابطہ نہیں ہوا۔
'جیل جانے کا کوئی خوف نہیں'
'جیل بھرو تحریک' اور خود جیل جانے کے سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ جیل جانے سے نہیں ڈرتے، کیوں کہ اُن پر پہلے ہی قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے اور وہ نئی زندگی جی رہے ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ مجھے جیل میں ڈال کر اس کے بعد آنے والے ردِعمل کا سامنا کر سکیں گے؟