رسائی کے لنکس

پارلیمنٹ سے خطاب؛’مودی جیسے چین کانام نہیں لیتے، اڈانی کابھی نہیں لیں گے‘


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

وزیر اعظم مودی نے ایک بار پھر بھارتی پارلیمنٹ میں گوتم اڈانی سے متعلق خود پر اپوزیشن کے الزامات کا براہِ راست جواب دینے کے بجائے حزبِ اختلاف کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنی حکومت کی کامیابیاں بیان کرنے پراکتفا کیا۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے بجٹ اجلاس کے دوران پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے صدر کے خطبے پر ہونے والی بحث میں حصہ لیا۔ لیکن اپنی تقریر میں ایک بار بھی ملک کے بزنس ٹائکون گوتم اڈانی یا ان کی کمپنی کا نہ تو نام لیا او رنہ ہی کوئی حوالہ دیا۔

انھوں نے جمعرات کو ایوان بالا راجیہ سبھا میں جوں ہی اپنی تقریر کا آغاز کیا تو حزب اختلاف کے ارکان نے’مودی اڈانی بھائی بھائی‘ کے نعرے لگانا شروع کردیے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر کے دوران یہ نعرہ ایوان میں گونجتا رہا۔

حزب اختلاف کا الزام ہے کہ گوتم اڈانی اور وزیر اعظم کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں جن سے اڈانی گروپ کے کاروباری مفادات کو تحفظ اور بڑھاوا ملا ہے۔

اپوزیشن مطالبہ کررہی ہے کہ ہنڈنبرگ رپورٹ کی روشنی میں 2014 کے بعد اڈانی گروپ کے اثاثوں میں ہونے والے بے تحاشہ اضافے کی جانچ پڑتال پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی (جے پی سی) یا سپریم کورٹ کی نگرانی میں کسی کمیٹی سے کرائی جائیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ امریکی کمپنی ہنڈنبرگ کی ایک رپورٹ کے سامنے آئی تھی جس میں اڈانی گروپ پر تاریخ کے سب سے بڑے مارکیٹ فراڈ کا الزام عاید کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد حکومت کو حزب اختلاف کی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اس کا الزام ہے کہ حکومت کی حمایت کی وجہ ہی سے اڈانی کی دولت میں اضافہ ہوا ہے۔

’جتنا کیچڑ اچھالیں گے کمل اتنا ہی کھلے گا‘

وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ کچھ اراکان کے رویے اور ان کی زبان سے پورا ملک مایوس ہوا ہے۔ انہوں ںے کہا:’’میں ایسی ذہنیت رکھنے والوں سے یہی کہوں گا کہ آپ جتنا کیچڑ اچھالیں گے کمل (کنول) اتنا ہی کھلے گا۔‘‘

خیال رہے کہ کنول کا پھول حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا انتخابی نشان ہے۔ان کے مطابق ایوان میں جو کچھ ہو رہا ہے عوام دیکھ رہے ہیں۔ کچھ اراکین نے تو ایوان کا وقار مجروح کیا ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ سیکولرزم کا اصل مطلب ہم سمجھتے ہیں۔ حقیقی سیکولرزم کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی مختلف فلاحی اسکیموں کا فائدہ تمام ضرورت مندوں تک پہنچے۔ ہم نے ٹیکنالوجی کی طاقت کے بل پر کام کرنے کا طریقہ بدل دیا ہے۔

انھوں نے الزام لگایا کہ کانگریس نے گزشتہ 60 برسوں میں ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے کے بجائے ملک میں گڑھے کھود دیے جب کہ اسی دوران چھوٹے چھوٹے ملک ترقی کرتے رہے۔

وزیرِ اعظم مودی نے اپنی تقریر میں ماضی کی کانگریس حکومتوں پر متعدد الزامات عاید کیے۔

ایک روز قبل ایوان زیریں لوک سبھا میں بھی ڈیڑھ گھنٹے کی اپنی تقریر کے دوران وزیرِ اعظم مودی نے اڈانی کا نام نہیں لیا اور نہ ہی اس معاملے کا کوئی ذکر کیا۔ تاہم انھوں نے اس بارے میں حزب اختلاف کے الزامات کو بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔ ان کے بقول ملک کے ایک ارب 40 کروڑ لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ وہ اپوزیشن کی باتوں پر یقین نہیں کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ میں تعمیری تنقید کا خیرمقدم کرتا ہوں لیکن میں نے گزشتہ چند دنوں کے دوران بعض ارکان پارلیمان سے جو کچھ سنا تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے تنقید کرنا ان کی مجبوری بن گئی ہے۔ ان لوگوں نے مجھ پر بے بنیاد الزامات لگا کر پچھلے نو برس برباد کر دیے۔

اپوزیشن کے الزامات

یاد رہے کہ سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے منگل کو صدر کی تقریر پر ہونے والی بحث میں حصہ لیتے ہوئے گوتم اڈانی اور نریندر مودی کے درمیان مبینہ تعلقات کا ذکر کیا تھا اور الزام عاید کیا تھا کہ اڈانی گروپ نے حکومت سے سازباز کرکے اپنے اثاثوں میں اضافہ کیا ہے۔

انھوں نے سوال کیا کہ 2014 سے قبل گوتم اڈانی کی دولت آٹھ ارب ڈالر تھی لیکن وہ 2014 سے 2022 درمیان بڑھ کر 140 ارب ڈالر کیسے ہو گئی۔ انھوں نے پوچھا کہ گوتم اڈانی 2014 تک عالمی امیروں کی فہرست میں 609 ویں نمبر پر تھے مگر اب وہ دوسرے نمبر پر کیسے آگئے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ اڈانی گروپ کو ایئرپورٹ کے شعبے میں کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن حکومت نے ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے ملک کے چھ ایئرپورٹ دے دیے۔ دفاع کے شعبے میں بھی کوئی تجربہ نہ ہونے کے باوجود اسے چار دفاعی ٹھیکے دیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ بارہا ایسا ہوا کہ وزیر اعظم نے کسی ملک کا دورہ کیا اور ان کی واپسی کے بعد گوتم اڈانی نے اس ملک کا دورہ کیا اور وہاں جا کر معاہدے کیے۔

انھوں نے ہنڈنبرگ رپورٹ کی روشنی میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سے اس پورے معاملے کی تحقیقات کرائے۔

راہل گاندھی نے وزیر اعظم کی پہلے دن کی تقریر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے لوک سبھا میں جو سوالات اٹھائے تھے وزیر اعظم نے ان میں سے ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔

ان کے بقول میں نے جو پیچیدہ سوالات پوچھے ان پر وزیر اعظم حیران تھے اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ وزیر اعظم کی تقریر سے مطمئن نہیں ہوئے۔

ان کے مطابق اگر گوتم اڈانی وزیر اعظم کے دوست نہیں ہیں تو انھیں تحقیقات کرانی چاہییں۔ وہ اس معاملے پر خاموش ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ان کو بچا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ قومی سلامتی کا ہے۔

’مودی چین کی طرح اڈانی کانام نہیں لیتے‘

تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعظم نے بدھ اور جمعرات کو پارلیمان میں جو تقریر کی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ انتخابی تقریریں ہیں۔ انھوں نے اپوزیشن کے الزامات پر وزیر اعظم کی خاموشی پر سوال اٹھایا ہے۔

سینئر تجزیہ کار شیتل سنگھ کا کہنا تھا کہ پہلے سے یہ امید تھی کہ وزیر اعظم اپوزیشن کے الزامات کے جواب نہیں دیں گے اور نہ ہی وہ اڈانی گروپ کا کوئی حوالہ دیں گے۔ حالانکہ انھیں کوئی درمیان کا راستہ نکالنا چاہیے تھا۔ لیکن جس طرح وہ چین کا نام نہیں لیتے اسی طرح وہ اڈانی کا بھی نام نہیں لے رہے ہیں۔

ان کے بقول پارلیمنٹ کی یہ روایت رہی ہے کہ حکومت ایوان میں اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دیتی رہی ہے۔

دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق نریندر مودی نے اپنی تقریروں میں صرف اپنی حکومت کی تعریف کی اور اپوزیشن اور سابقہ حکومتوں پر الزامات میں اپنی توانائی صرف کی۔ انھوں نے ایک حکمت عملی کے ساتھ اڈانی کا نام نہ لینے کا فیصلہ کیا۔

مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سابقہ وزرائے اعظم اپوزیشن کے سوالوں کو نوٹ کرتے تھے اور ایک ایک نکتے کا جواب دیتے تھے۔ لیکن یہ حکومت شاید اس میں یقین نہیں رکھتی۔ اسی لیے وہ مسائل پر بات نہیں کرتی۔

یاد رہے کہ ہنڈنبرگ کی رپورٹ کے بعد یہ معاملہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس دوران اڈانی گروپ کے شیئرز کی قیمتوں میں بے تحاشہ گرواٹ آئی ہے جس کے نتیجے میں اڈانی کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو گیا ہے۔ وہ اب دنیا کے دوسرے امیر شخص نہیں رہے۔ تاہم بدھ کے روز ان کی بعض کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG