بھارت نے امریکہ کے ادارے 'فریڈم ہاؤس' کی حالیہ رپورٹ میں، جس میں اسے شہری آزادیوں کے لحاظ سے آزاد ملکوں کی فہرست سے نکال کر جزوی طور پر آزاد ملکوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، کو مسترد کر دیا ہے۔
بھارت کی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے جاری کردہ بیان کے مطابق فریڈم ہاؤس کی رپورٹ، جس کا عنوان 'جمہوریت محاصرے میں' ہے، گمراہ کن، نامکمل معلومات پر مبنی اور غلط ہے۔
وزارت اطلاعات نے ایک طویل بیان میں کئی امور پر بھارت کے موقف کو بیان کیا ہے۔
دوسری جانب حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے رپورٹ تیار کرنے والوں کے خلوص پر سوال اٹھاتے ہوئے اس میں بھارت کے بارے میں کہی گئی باتوں کو جانب درانہ قرار دیا ہے۔
بی جے پی کے ایک ترجمان نے کہا کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی فعال جمہوریت ہے جہاں اظہارِ رائے اور عقیدے کی آزادی کی جڑیں گہری اور مضبوط ہیں۔ لیکن اندرون اور بیرون ملک کچھ عناصر ملک کے تشخص کو داغ دار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
'نریندر مودی سب کچھ ملک کے مفاد میں کررہے ہیں'
بی جے پی کے ترجمان بریگیڈیئر ریٹائرڈ انیل گپتا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے۔ نریندر مودی حکومت کی جانب سے جو بھی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں وہ ملک کے مفاد میں ہیں۔
ان کے بقول انہیں کسی کی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے کئی ادارے ہیں جو آزاد نہیں ہیں۔ بلکہ مختلف لابیوں کی ایما یا دباؤ پر اس قسم کی رپورٹیں تیار کرتے ہیں۔
'رپورٹ میں حقیقت بیانی کی گئی ہے'
سرکردہ صحافی اور مصنفہ تولین سنگھ کا کہنا تھا کہ فریڈم ہاؤس نے سال 2021 کی رپورٹ میں بھارت میں آزادیٔ اظہار کی صورتِ حال کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ حقائق سے بعید نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ درست ہے۔ اگر آپ اختلاف کرنے والوں کو جیل میں ڈال دیں گے۔ اُن پر غداری کا الزام لگائیں گے۔ تو دنیا تو یہی کہے گی کہ آپ کا ملک مکمل طور پر آزاد نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ میں آئین میں اظہارِ رائے کو بنیادی حق بنانے کی ضمانت دی گئی۔ نہرو نے 1951 یا 1952 میں پہلی ترمیم کے ذریعے اسے کنٹرول کرنے کے لیے راہ ہموار کی۔ تو اس کی شروعات بہت پہلے ہوئی تھی۔ لیکن گزشتہ ایک برس میں اس میں تیزی آئی۔
ان کے بقول کئی صحافیوں کی ملازمتیں چلی گئیں۔ کتنے ہی لوگوں پر ملک سے غداری کے مقدمات درج کیے گئے۔ متعدد افراد کو جیل بھیج دیا گیا۔ یہ دنیا سے پوشیدہ نہیں۔
رواں ہفتے کے آغاز میں جاری ہونے والی 'فریڈم ان ورلڈ انڈیکس 2021' میں شہری اور سیاسی آزادیوں کے حوالے سے بھارت کی تنزلی کی کئی وجوہات درج کی گئی ہیں۔ جن میں بھارت کی حکومت اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ملک کے مسلمانوں اور دیگر اقلیتی گروہوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد، امتیازی پالیسیوں، میڈیا، تعلیمی ماہرین، سول سوسائٹی کے اداروں اور احتجاج کرنے والوں کی آواز دبانے کے لیے اختیار کی گئی پالیسیاں شامل ہیں۔
'محرکات پر ملک گیر بحث ہونی چاہیے'
بھارت کے انگریزی روزنامے 'ہندوستان ٹائمر' کے سیاسی مدیر ونود شرما نے کہا کہ فریڈم ہاؤس کی رپورٹ کے پس منظر میں بھارت میں آزادئ اظہار کے حوالے سے پائی جانے والی موجودہ صورتِ حال پر ایک ملک گیر بحث ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ان امور پر ملک گیر بحث ہونی چاہیے جن کی وجہ سے بیرونی دنیا نے بھارت کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کی ہے۔
ان کے بقول بدقسمتی سے آج لوگ برسرِ اقتدار ٹولے کی طرف سے انتقام کے خوف سے اہم معاملات پر بحث کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مرکزی حکومت اور ملک کی مختلف ریاستوں کی حکومتیں اس خوف کو دور کرنے کے لیے اقدامات کریں۔
فریڈم ہاؤس کسی ملک میں آزادیوں کی صورتِ حال کو جانچنے کے لیے سیاسی آزادیوں، انٹرنیٹ کی آزادی اور شہری آزادیوں کی صورتِ حال کو مد نظر رکھتا ہے۔
فریڈم ہاؤس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیائی خطے کے تقریباً تمام ممالک شہری اور سیاسی آزادیوں کے لحاظ سے کم آزاد درجے کے ملکوں میں شامل ہیں۔