اس سال کے آخر تک، جنوبی عراق کے اس اڈے سے امریکی پرچم اتار دیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی عراق میں امریکہ کی تقریباً نو سالہ موجودگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ بیسویں انجینیئر بریگیڈ کے سارجنٹ میجربٹلر کنڈرک جونیئر ان فوجیوں میں شامل ہیں جو 2003 میں عراق پر حملے کے وقت یہاں آئے تھے ۔
انہیں کئی بار عراق میں تعینات کیا گیا، اور وہ اس سال پھر واپس آئے ہیں ۔ یوں ان کا شمار سب سے پہلے آنے والوں اور سب سے بعد میں واپس جانے والوں میں ہوتا ہے ۔ وہ گھر پہنچ کر نئی زندگی شروع کرنے کے منتظر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں’’میں اپنی بیٹی اور اپنی بیوی کے ساتھ وقت گذارنے کے لیے بے چین ہوں۔ میں عام زندگی کی خوشیوں کا لطف اٹھانا چاہتا ہوں۔‘‘
لیکن سارجنٹ میجرکنڈرک اپنے ساتھ کچھ تلخ یادیں لے کر گھر لوٹ رہے ہیں ۔ چار سال پہلے ان کے کمپنی کمانڈر میجر جیمز اہرن 2007 کی گرمیوں میں ایک بم سے ہلاک ہو گئے تھے ۔ وہ یہ سانحہ بھول نہیں سکتے ۔ وہ کہتے ہیں’’وہ گھریلو ساخت کے ایک بم کا نشانہ بن گئے ۔ اس دن میں ان کے ساتھ گشت نہیں کر رہا تھا ۔ اپنے ان تمام ساتھیوں میں جو اس جنگ میں ہلاک ہوئے، مجھے سب سے زیادہ وہی یاد آتے ہیں، کیوں کہ لڑائی میں ہم دونوں ہمیشہ ساتھ رہتے تھے۔‘‘
عراق میں چار ہزار چار سو سے زیادہ امریکی کام آئے ۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس جنگ کا مقصد عراق سے آمریت ختم کرنا اور وہاں جمہوریت لانا تھا۔
جنرل Jeffrey Buchanan کہتے ہیں کہ اس سمت میں پیش رفت توہوئی ہے ، لیکن اب مستقبل عراقیوں کے ہاتھ میں ہے ۔’’ایک ایسے فرد کی حیثیت سے جس نے ان آٹھ برسوں کا بیشتر حصہ یہاں عراق میں گذارا ہے، میرے لیے یہاں ہونے والی ترقی کا مشاہدہ کرنا بڑا ولولہ انگیز ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں اس کی جو قیمت ادا کرنی پڑی ہے اور جو قربانیاں دینی پڑی ہیں، میں انہیں بھول نہیں سکتا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ عراق کے لوگوں کو اب جو مواقع ملے ہیں وہ پہلے کبھی نہیں ملے تھے ۔ مجھے پوری امید ہے کہ وہ ان مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے ۔‘‘
لیکن بعض عراقیوں کا خیال ہے کہ کہ امریکہ کا حملہ جس میں لاکھوں عراقیوں کی جانیں گئیں ، گھاٹے کا سودا تھا۔ مرنے والے عراقیوں میں حبہ ہشام کی بڑی بہن بھی شامل تھیں ۔ وہ بائیس برس کی عمر میں بغداد کے ایک ہسپتال میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں ۔ ڈاکٹروں نے انہیں بچانے کی کوشش کی لیکن ہسپتال میں ضروری سامان ختم ہو چکا تھا۔
حبہ ہشام کہتی ہیں’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ صدام سے پہلے، جنگ سے پہلے ، زندگی کتنی مشکل تھی ۔ لیکن کیا اس کے لیے اتنے لوگوں کو ہلاک کرنے، اتنے نوجوانوں کی زندگیاں ختم کرنے کا کوئی جواز بنتا ہے؟ میرے خیال میں ، نہیں۔ میں صحیح معنوں میں سمجھتی ہوں کہ اس کی جو قیمت ادا کی گئی وہ بہت زیادہ تھی۔ اور پھر مسئلہ یہ ہے، کہ کچھ بھی تو نہیں بدلا ہے ۔ اب بھی دھماکے ہوتے ہیں، اب بھی بم پھٹتے ہیں، لوگ اب بھی مر رہے ہیں۔‘‘
آٹھ برسوں کی جنگ نے ان امریکیوں پر جنھوں نے عراق میں خدمات انجام دیں، اور ان عراقیوں پر جنھوں نے مصیبتیں برداشت کیں، بڑے گہرے زخم چھوڑے ہیں۔