رسائی کے لنکس

جاپان: تابکاری کے اخراج پر تشویش اور خوف


جاپان: تابکاری کے اخراج پر تشویش اور خوف
جاپان: تابکاری کے اخراج پر تشویش اور خوف

جاپان کے لوگ 1945ء کے بعد، ایٹم بم کی ہولناکیوں کو جلد ہی بھول گئے۔ انھوں نے سوچا کہ جب تک نیوکلیئر پاور پُر امن طریقوں سے استعمال کی جاتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن ہمیں ہیرو شیما اور ناگاساکی کے تجربات سے سبق لینا چاہیئے۔

جاپان میں فوکو شیما جوہری پاور پلانٹ کے بحران کے ممکنہ خطرات سے خوف کی لہر دوڑ گئی ہے ، اور دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر جاپان کے شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کے حملوں کی تکلیف دہ یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔ نیوکلیئر تابکاری کے ہولناک نتائج کا تجربہ جتنا جاپان کو ہے، کسی اور ملک کو نہیں۔ لیکن 1945ء کی بمباری سے بچ جانے والوں کو ڈر ہے کہ دنیا اس المیے کو فراموش کرتی جا رہی ہے۔

کی جیرو متسوشیما (Keijiro Matsushima) ہیروشیما میں دریائے اوٹا (Ota) کے کنارے شام کے وقت چہل قدمی کر رہےہیں۔ وہ ایک لمحے کے لیے رکتے ہیں اور ایٹم بم حملے کے یادگاری گنبد پر نظر ڈالتے ہیں۔ اس شہر میں جو تباہی آئی تھی، یہ گنبد اسی کی یادگار ہے۔ 6 اگست 1945ء کو کی جیرو ہیروشیما کے ایک اسکول میں سولہ سالہ طالب علم تھے۔ انہیں یاد ہے کہ اس روز انہیں آسمان پر دو امریکی جہاز نظرآئے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ صبح سورج کی روشنی میں یہ جہاز کتنے خوبصورت لگ رہے ہیں۔ لیکن پھر اگلے ہی لمحے ایک بہت بڑا شعلہ نظر آیا، زبردست جھٹکا محسوس ہوا اور شدید گرمی کی لہر نے مجھ پر حملہ کر دیا۔

کی جیرو بتاتے ہیں کہ شہر سے بھاگتے وقت انھوں نے کیا دیکھا۔ ’’بہت سے لوگ سر سے پیر تک بری طرح جھلس گئے تھے ۔ ان کی جھلسی ہوئی جلد ان کے چہروں، بازؤں اور گردنوں سے الگ ہو کر گِر رہی تھی۔‘‘

اس روز ہیرو شیما میں تقریباً پینتالیس ہزار افراد ہلاک ہو گئے ۔ لیکن بعد کے مہینوں ، برسوں اور عشروں میں، مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر اندازاًً ایک لاکھ چھیا سٹھ ہزار تک پہنچ گئی۔ کی جیرو کا کہنا ہے کہ ’’بظاہر تندرست نظر آنے والے لوگ بھی، جن میں کسی زخم یا جلنے کے نشان نظر نہیں آتے تھے، اچانک عجیب و غریب بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے تھے، جیسے تیز بخار، مسوڑھوں سے خون بہنا، جسم پر بہت سے نشانات نظر آنا۔ ڈاکٹروں تک کی سمجھ میں نہِیں آتا تھا کہ کیا کریں۔ لوگوں نے اس کیفیت کو ایٹم بم کی بیماری کا نام دے دیا۔‘‘

جاپان: تابکاری کے اخراج پر تشویش اور خوف
جاپان: تابکاری کے اخراج پر تشویش اور خوف

بعد کے عشروں میں ان بیماریوں کو تابکاری کے اثرات کی حِیثیت سے جانا جانے لگا۔ اب سونامی سے فوکو شیما نیوکلیئر پاور پلانٹ کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے جاپان کے کچھ حصوں میں تابکاری کی نئی لہر پھیل گئی ہے۔ حکومت نے پلانٹ کے ارد گرد کا 20 کلومیٹر کا علاقہ خالی کرا لیا ہے۔ 250 کلومیٹر دور جنوب میں، ٹوکیو میں والدین کو انتباہ کیا گیا ہے کہ وہ شیر خوار بچوں کو نل کا پانی نہ دیں کیوں کہ اس میں تابکاری کے اجزا پائے گئے ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کے المیوں سے بچ جانے والے ، جنھیں ہیبا کوشا (hibakusha) کہا جاتا ہے، تابکاری کے اثرات کے بارے میں معلومات کا بڑا ذریعہ بن گئے ہیں۔

ہیرو شیما یونیورسٹی کے پروفیسر ماسا ہارو ہوشی (Masaharu Hoshi) اس موضوع پر تین عشروں سے ریسرچ کر رہےہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ اگر فوکو شیما پلانٹ میں تابکاری کی سطحیں اچانک بڑھ گئیں تو کیا ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ ’’فوکو شیما میں ایک امکان تو یہ ہے کہ لوگ بتدریج طویل عرصے کے دوران تابکاری سے متاثر ہوں۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن بعد میں اگر کوئی نیوکلیئر دھماکا ہوا، اور لوگ چند دنوں کے اندرتابکاری کے زیرِ اثر آ گئے، تو یہ صورت بہت پریشان کن ہوگی‘‘۔

ہوشی کہتےہیں کہ انہیں ڈر ہے کہ لوگوں کو صحیح بات نہیں بتائی جا رہی ہے کہ حالات کتنے سنگین ہیں۔ ان کے مطابق ’’مثلاً حکومت کہہ رہی ہے کہ پلانٹ کے 30 کلومیٹر کے نصف قطر سے باہر رہنے والے لوگ اپنے گھروں میں محفوظ ہیں۔ لیکن 30 کلومیٹر کے زون کے باہر کے کچھ علاقے بھی خطرناک ہیں۔ ان کے خیال میں، 80 کلومیٹر کا زون، کہیں زیادہ محفوظ ہے اور یہی بات امریکی حکومت نے کہی ہے‘‘۔

کی جیروکہتےہیں کہ جاپان کے لوگ 1945ء کے بعد، ایٹم بم کی ہولناکیوں کو جلد ہی بھول گئے۔ انھوں نے سوچا کہ جب تک نیوکلیئر پاور پُر امن طریقوں سے استعمال کی جاتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن ہمیں ہیرو شیما اور ناگاساکی کے تجربات سے سبق لینا چاہیئے۔ وہ کہتے ہیں کہ فوکو شیما نیوکلیئر پلانٹ کے خطرے سے جاپان کو یاد آ گیا ہے کہ اس وقت کیا ہوا تھا اور پورا ملک پریشان ہے کہ اب کیا ہو گا۔ اب ہمیں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیئے اورایک بار پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہو جانا چاہیئے ۔ ہم ایسا ہی کریں گے!

یہی وہ جذبہ ہے جس کے تحت فوکو شیما کو تباہی سے بچانے کی کوشش کرنے والے انجینئروں اور آگ بجھانے والوں کا ہیروز کی طرح خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ جاپان اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر یہ لوگ اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوئے تو نتائج کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG