جمعرات کے روز صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں’ کونن‘ کو شرف ملاقات بخشا، اس کی بہادری کی تعریف کی اور اسے میڈل پہنایا۔
واشنگٹن کے 1600 پنسلوانیا ایونیو پر واقع وائٹ ہاؤس میں کونن کو ملنے والے اعزاز پر یقیناً ساڑھے پانچ کروڑ کتے ضرور خوش ہوئے ہوں گے جنہیں امریکیوں نے اپنے گھروں میں پال رکھا ہے۔
کونن امریکہ کے خصوصی فوجی دستے میں شامل ایک کتا ہے جس نے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے خلاف آپریشن میں اس وقت بغدادی کا کھوج لگایا جب وہ اپنے گھر پر حملے کے بعد وہاں سے نکل کر ایک سرنگ میں چھپ گیا تھا۔
داعش کے سربراہ نے شام کے شمالی صوبے ادلب کے ایک دور افتادہ قصبے میں خود کو چھپایا ہوا تھا۔
امریکی فوجی جب اس گھر کے قریب سرنگ کے پاس پہنچے تو بغدادی نے خودکش جیکٹ کا دھماکہ کر کے خود کو ہلاک کر لیا۔ اس دھماکے میں بغدادی کے ساتھ موجود دو بچے بھی ہلاک ہو گئے اور ’کونن‘ کو بھی زخم آئے۔ تاہم یہ زخم معمولی نوعیت کے تھے، جن کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ صحت یاب ہو جائے گا۔
امریکہ کے محکمہ ڈاک نے ان مخصوص نسلوں کے کتوں کی تصاویر پر مبنی ڈاک ٹکٹ جاری کیے ہیں جنہیں فوجی اور جاسوسی کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
کونن کا تعلق بیلجیئم میلن وا نسل سے ہے۔ اس نسل کے کتوں کو ذہین کتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
میلن وا کے کتوں کا وزن 64 سے 75 پونڈ، قد 24 سے 26 انچ ہوتا ہے اور ان کی اوسط عمر کا تخمینہ 12 سے 14 سال ہے۔
میلن وا کتے گھروں میں رکھے جاتے ہیں۔ تاہم انہیں سدھا کر جاسوسی اور فوجی نوعیت کے امور میں بھی ان کی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔
امریکی فوج میں شامل کتوں کے نام اور شناخت پوشیدہ رکھی جاتی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں لائے جانے تک کسی کو بھی ’کونن‘ کے نام اور اس کی خدمات کا علم نہیں تھا۔ اس نے صرف بغدادی کی تلاش کی مہم میں ہی حصہ نہیں لیا بلکہ کئی دوسری اہم فوجی خدمات بھی اس کے کریڈٹ پر ہیں، تاہم انہیں بدستور صیغہ راز میں رکھا گیا ہے۔
کونن کے متعلق دنیا کو صدر ٹرمپ کی ایک ٹوئٹ سے پتا چلا اور انہوں نے لوگوں کی نظروں سے اوجھل زندگی گزارنے والے کتے کی ایک تصویر جاری کر دی۔ یہ تصویر شام میں بغدادی کے گھر پر حملے اور اس کی ہلاکت کے بعد منظر عام پر آئی۔
صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی ٹوئٹ میں اگرچہ بغدادی کے خلاف مہم میں حصہ لینے والے کتے کا نام افشا نہیں کیا تھا۔ تاہم بعد میں انہوں نے اس کا نام بھی ڈی کلاسیفائیڈ کر دیا۔
کونن کو داعش کے سربراہ کے خلاف فوجی مہم کے لیے خصوصی طور پر امریکہ سے شام بھیجا گیا تھا، جس کا انکشاف صدر ٹرمپ نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کونن‘ مشرق وسطیٰ سے واشنگٹن کے لیے روانہ ہو رہا ہے۔
کتے کو اہم ترین فوجی اہداف کے لیے استعمال کرنے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ اس سے قبل اسی نسل کے ایک تربیت یافتہ کتے نے 2011 میں پاکستان میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی میں حصہ لیا تھا۔
صدر ٹرمپ ایک روایت شکن صدر ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے نہ فوجی جاسوسی کے لیے استعمال کیے جانے والے کتوں کے نام مخفی رکھنے کا اصول توڑا بلکہ انہیں منظرعام پر نہ لانے کی روایت بھی توڑ دی۔
وائٹ ہاؤس میں کتا رکھنے کی روایت ایک صدی سے زیادہ پرانی ہے۔ کئی مشہور صدور کے پاس پالتو کتے تھے جن میں کئی کتے تو بہت مشہور بھی ہوئے۔ مثلاً اوباما کے کا بو اور سنی، جارج ڈبلیو بش کا ملی، کینیڈی کا چارلی اور فرینکلن روز ویلٹ کا فالا۔
روز ویلٹ نے تو وائٹ ہاؤس میں پورا چڑیا گھر کھول رکھا تھا۔ ان کے پاس چھ کتے، ایک شیر، لگڑبگڑ اور بجو سمیت 22 پالتو جانور تھے۔ اگر ہم ماضی میں اور پچھے جائیں تو 1897 سے 1901 تک کے صدر ولیم مک کنلی کے پاس کوئی پالتو کتا نہیں تھا، بلکہ انہوں نے مرغیاں، بلیاں اور طوطے پال رکھے تھے۔