جنوری 2020 میں ایڈیٹر نے جب مجھے پاکستان کے سابق صدر ممنون حسین کے انٹرویو کے لیے کہا تو میں وقتی طور پر کچھ پریشان ہوا کہ ان سے وقت کیسے لیا جائے۔ کیوں کہ تجربہ یہ رہا ہے کہ مختلف حاضر اور سابقہ حکومتی شخصیات سے ملاقات اور انہیں انٹرویو کے لیے راضی کرنا اکثر مشکل ہوتا ہے۔
ایک دوست سے ممنون صاحب کا نمبر لیا اور انہیں فون کیا۔ مجھے امید تھی کہ لینڈ لائن کا یہ نمبر ان کا کوئی سیکریٹری یا گھر کا ملازم اٹھائے گا۔ لیکن دوسری جانب خود سابق صدر ممنون حسین ہی موجود تھے۔
اپنا تعارف کرانے کے بعد جب میں نے مطلب کی بات کی تو میرے کہنے سے قبل ہی کہنے لگے کہ آپ کس دن اور کس وقت آ سکتے ہیں؟ میں نے مناسب وقت بتا کر ملاقات طے کی اور اگلے ہی روز ان کے گھر پہنچ گیا۔
کراچی کے علاقے باتھ آئی لینڈ میں ان کے گھر کے باہر پہنچ کر کہیں سے اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ یہ سابق صدرِ مملکت کا گھر ہے۔ کیوں کہ موجودہ ہی نہیں بلکہ سابقہ صدور، گورنر اور کئی سیاسی اور انتظامی عہدوں پر تعینات رہنے والوں کے گھر تو گھر، گلی میں بھی داخل ہونے سے پہلے آپ کو سیکیورٹی کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن انٹرویو کے دوران ان کی سادہ طبیعت، ملنساری اور میزبانی کے ساتھ نفاست اور خلوص نے مجھے خاصا متاثر کیا۔
لگ بھگ 28 برس تک ممنون حسین کے قریبی رفیق رہنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سینیٹر نہال ہاشمی کا کہنا ہے کہ 1940 میں بھارتی ریاست اتر پردیش میں پیدا ہونے والے ممنون حسین بہت ہی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔
اُن کے بقول وہ ایک صاف گو شخصیت ہونے کے علاوہ میرٹ پر بھی کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔
جامع کلاتھ مارکیٹ کے تاجر سے ایوانِ صدر تک
نہال ہاشمی کے مطابق کراچی کی مشہور جامع کلاتھ مارکیٹ میں کپڑوں کے بڑے تاجر رہنے کے باوجود ممنون حسین کو کبھی پیسے کی ہوس نہ رہی اور وہ عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنے کے قائل تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اکثر ممنون حسین کے ساتھ موٹر سائیکل پر بھی سفر کیا وہ دوستوں، عزیزوں کے علاوہ ملازمین کے ساتھ ہی بیٹھ کر کھانا کھا لیتے تھے۔
نہال ہاشمی اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ ممنون حسین کم گو تھے بلکہ ان کے خیال میں وہ موقع محل دیکھ کر بات کرنے کے قائل تھے۔ ان کے پاس معلومات کا خزانہ تھا اور حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
ان کے بقول وہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف سے بے حد پیار کرتے تھے اور میاں نواز شریف کا جب بھی کراچی آنا ہوتا تو وہ ممنون حسین کے گھر ضرور جاتے تھے۔ اس قریبی تعلق ہی کی بنا پر 1997 میں انہیں مسلم لیگ (ن) کے سندھ میں وزیر اعلیٰ لیاقت جتوئی کا مشیر اور پھر جون 1999 میں میاں نوازشریف کے دورِ حکومت ہی میں انہیں صوبہ سندھ کا 24واں گورنر بھی بنایا گیا۔
اگرچہ 12 اکتوبر 1999 کو میاں نواز شریف حکومت کی معزولی کے بعد وہ کچھ عرصہ جیل میں بھی رہے اور وہاں سے رہائی کے بعد سیاسی میدان میں بہت کم ہی متحرک نظر آئے لیکن نواز شریف کی جلا وطنی ختم ہونے کے بعد ایک بار پھر وہ فعال ہوئے اور اکثر میاں نواز شریف کے ساتھ ہی نظر آتے تھے۔
پکے مسلمان اور کفایت شعار صدر
نہال ہاشمی کے مطابق وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ قرآن کی تلاوت اور فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کا بھی خصوصی اہتمام کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی کسی سے اس بارے میں ذکر نہیں کرتے تھے۔ اس کے ساتھ اشعار سے انہیں خوب لگاؤ تھا جب کہ لمبے سفر پر جاتے تو ہمیں گانے بھی سناتے تھے۔
ان کے مطابق ستمبر 2013 میں صدرِ مملکت بننے کے بعد ایوانِ صدر میں شاعروں ادیبوں اور صحافیوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ بقول ان کے گزشتہ ادوار میں کی جانے والی فضول خرچیوں اور شاہانہ اخراجات کو بند کروایا۔ سادگی اپنائی گئی، سیکیورٹی اور پروٹوکول میں کمی لائے اور ان کے دور میں ایوانِ صدر میں صدر سے ملنے ہر کوئی جا سکتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ وہ ہمیشہ اپنا موبائل فون خود ہی اٹینڈ کرتے تھے۔
ممنون حسین کے دورِ صدارت میں ایوانِ صدر کے پریس سیکریٹری، صحافی اور ان کے قریب رہنے والی ایک اور شخصیت فاروق عادل نے بتایا کہ ممنون حسین نے ذاتی طور پر ہدایت کی تھی کہ کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے ان پر یا ان کے کسی ساتھی پر مالی بدعنوانی کا الزام لگے۔
ماضی میں اتنے اعلیٰ عہدوں اور ان سے جڑی شخصیات کے مالی بدعنوانی کے قصے جان کر وہ اپنے ساتھ کام کرنے والے ہر شخص کو سرکاری اخراجات کے بارے میں انتہائی محتاط سادگی اور کم خرچ کی تلقین کرتے تھے۔
فاروق عادل کے بقول ان کی ایوان صدر میں سرکاری وسائل کے اخراجات بچانے کے لیے اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب بعض دوستوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ رومال کی جگہ ٹشو پیپر استعمال کر لیا کریں تو ممنون حسین کہنے لگے میں نے حساب لگایا ہے کہ ایک ٹشو 50 پیسے کا آتا ہے اور دن میں اگر آدمی استعمال کرتا چلا جائے تو قومی خزانے سے روز کے سیکڑوں روپے صرف میرے ٹشو پیپرز پر ہی خرچ ہو جائیں گے۔ اس لیے یہ مناسب نہیں۔
'وہ خبر جو سب کے لیے غیر متوقع تھی'
فاروق عادل کے بقول وہ ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے خود کو ہمیشہ اپنے آئینی کردار تک محدود رکھا۔
اُن کے بقول جب میاں محمد نواز شریف نے انہیں پاکستان کے سب سے بڑے منصب یعنی صدارت کے لیے منتخب کیا تو اس کا ردِعمل ایک سناٹے کی صورت میں سامنے آیا۔ عام آدمی ہی نہیں صحافیوں تک کے لیے یہ ایک غیر متوقع خبر تھی۔
فاروق عادل نے بتایا کہ جب اس فیصلے کے اعلان سے قبل ذرائع سے یہ خبر اپنے اخبار کو اشاعت کے لیے دی تو ایڈیٹرز نے اس کی اشاعت سے انکار کر دیا تھا۔ کیوں کہ ان کے خیال میں یہ ایک بے بنیاد خبر تھی۔ اس خبر کو بحث مباحثے کے بعد اخبار میں جگہ مل سکی۔
اسی طرح فاروق عادل کے ایک دوست یہ کہہ کر ان سے الجھ پڑے کہ یہ ایک غلط انتخاب ہے۔ جب انہوں نے سوال کیا کہ یہ غلط انتخاب کیسے ہے تو دوست نے جواب میں آصف علی زرداری اور پرویز مشرف جیسی شخصیات کی مثال پیش کی اور کہا کہ ملک کا صدر ان شخصیات کی طرح چالاک اور ہوشیار شخص ہونا چاہیے۔