خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلعے باجوڑ میں گھات لگا کر قتل کے واقعے کے خلاف منگل کو بھی احتجاج جاری رہا۔ مقتول قاری محمد الیاس کی آخری رسومات میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔
باجوڑ میں نوجوانوں کی تنظیم کے چیئرمین واجد علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ قاری محمد الیاس کے قتل کیے جانے کے خلاف ضلعی انتظامی مرکز خار میں پیر کو دھرنا دیا گیا تھا جو رات بھر جاری رہا۔ اس دھرنے میں مردوں کے علاوہ درجنوں خواتین بھی شریک ہیں جو قاری محمد الیاس کی رشتہ دار ہیں۔
واجد علی شاہ نے کہا کہ قاری محمد الیاس کی تدفین میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
باجوڑ سے تعلق رکھنے والا سینئر صحافی انور اللہ خان نے بتایا ہے کہ قاری محمد الیاس ایم اے پرائیویٹ کے طالب علم تھے اور وہ خار کے سرکاری اسکول میں امتحانی پرچہ دینے کے بعد جب باہر نکلے تو نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے ان کو قتل کر دیا۔
ان کے مطابق حملہ آور اس کارروائی کے بعد فرار ہونے میں کامیاب رہے۔
انوار اللہ کا کہنا تھا کہ کسی فرد یا گروہ نے تاحال قاری محمد الیاس کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
باجوڑ کی ضلعی پولیس کے حکام نے کا کہنا ہے کہ اس واقعے کا مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقے ماموند کے مختلف دیہاتوں میں مشتبہ مقامات پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ کئی مشتبہ افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے جن سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان کے بیان میں قاری محمد الیاس کے قتل سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی ایک بار پھر واضح کرتی ہے کہ ان کے اہداف میں مذہبی تنظیمیں شامل نہیں ہیں۔ جب کہ تحریک طالبان پاکستان فائربندی کے حالیہ معاہدے کی مکمل پاسداری کر رہی ہے۔
قاری محمد الیاس کا تعلق باجوڑ سے تھا وہ سیاسی طور پر جمعیت علماء اسلام (ف) سے وابستہ تھے۔ جنوری 2022 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں یونین کونسل کی نشست پر امیدوار بھی تھے۔
ان کے بڑے بھائی مفتی سلطان محمود کو اکتوبر 2019 میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
انور اللہ خان اور واجد علی شاہ دونوں کا مؤقف تھا کہ قاری محمد الیاس اور ان کے بڑے بھائی مفتی سلطان محمود اور ان کے خاندان کے دیگر افراد ایک مذہبی سیاسی جماعت سے وابستہ تھے۔ وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے سخت خلاف رہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف) خیبرپختونخوا کے ترجمان عبدالجلیل جان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قاری محمد الیاس اور ان کے بھائی مفتی سلطان محمود کے قتل میں ملوث افراد کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ قاری محمد الیاس سے قبل ان کے بھائی مفتی سلطان محمود کو بھی پر اسرار طور پر قتل کیا گیا تھا جو صوبائی اسمبلی کے نشست پر جے یو آئی - ایف کے امیدوار تھے۔
انہوں نے کہا کہ باجوڑ سمیت تمام قبائلی اضلاع میں امن و امان کی صورتِ حال بہت خراب ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں بتایا جائے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے کارکنوں اور عہدیداروں کی کیوں قتل کیا جا رہا ہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنماؤں کے علاوہ قوم پرست سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے بھی واقعے کی مذمت کی ہے۔