جاپان کے شہر ناگا ساکی پر ایٹمی حملے کی پیر 9 اگست کو 76 ویں برسی منائی گئی۔ اس موقعے پر شہر کے امن پارک میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ شہر کے مئیر تومی ہیسا تااواے نے جاپان کی حکومت پر زور دیا کہ وہ شمال مشرقی ایشیا کو ایٹمی اسلحے سے پاک کرنے کے لئے مزید کوششیں کرے اور دیگر ملکوں کی مدد کے وعدوں پر انحصار نہ کرے۔ یہ اس امریکی وعدے کی جانب اشارہ تھا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کا ضرورت پڑنے پر اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے دفاع کرے گا۔
9 اگست، 1945 کو دوسری جنگ عظیم کے دوران ناگا ساکی دنیا کا دوسرا شہر تھا جس پر ایٹم بم گرا تھا، اس سے دو دن قبل جاپان ہی کےشہر ہیرو شیما پر پہلا ایٹمی حملہ ہوا تھا، جس میں ایک لاکھ 40 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جاپان نے 15 اگست کو ہتھیار ڈال دیے اور دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہو گیا۔
اس موقعے پر شہر کے میئر تااواے نے امریکہ اور روس سے کہا کہ وہ تخفیف اسلحہ کے لیے اور زیادہ پیش رفت کریں۔ انہوں نے تخفیف اسلحہ کی کوششوں میں کمی پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی اسلحہ کو کم کرنے کی بجائے انہیں جدید اور ان کے حجم کو کم کیا جا رہا ہے۔
میئر نے جاپانی حکومت اور قانون سازوں سے اپیل کی کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے امتناع کے 2017 میں ہونے والے معاہدے پر دستخط کر دیں۔
اے پی کی رپورٹ کے مطابق، جاپان ایٹمی ہتھیاروں کو رکھنے یا بنانے کو مسترد کرتا ہے، مگر امریکہ کے اتحادی کے طور پر جاپان میں 50 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں اور جاپان کو امریکہ کی طرف سے ایٹمی تحفظ حاصل ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والے اس سیکیورٹی معاہدے کی وجہ سے جاپان کو پیچیدہ صورت حال درپیش ہے۔ اس کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ اپنی فوج بڑھا سکے اور چین یا شمالی کوریا کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایٹمی ہتھیار رکھنے والے برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک سے دفاعی تعاون میں اضافہ کر سکے۔
جاپان کے وزیر اعظم یوشی ہیدے سوگا کا کہنا ہے کہ تخفیف اسلحہ کے معاملے پر دنیا منقسم ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے بد اعتمادی کو دور کیا جائے اور ایک مشترکہ سوچ پر مبنی مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔
ناگاساکی کے میئر تاوئے نے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے متعلق اگلے سال ہونے والے اجلاس کے بارے میں توقع ظاہر کی ہے کہ اس کے ٹھوس نتائج نکلیں گے۔
انہوں نے سوگا حکومت سے اپیل کی ہے کہ ایٹمی حملے سے بچ جانے والے معمر افراد کی طبی دیکھ بھال اور فلاح و بہبود کو مزید بہتر کیا جائے۔ اوسطاً ایسے افراد کی عمر 83 سال سے زیادہ ہو چکی ہے۔