"ایون فیلڈ لندن کے فلیٹس خریدنے پر بننے والے ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو بری کر دیا تھا، اسے نیب نے کبھی چیلنج بھی نہیں کیا۔ لیکن احتساب عدالت نے نواز شریف کو صرف آمدن سے زائد اثاثہ جات کی بنیاد پر سزا سنائی تھی۔ سمجھ سے باہر ہے کہ کرپشن کی بنیاد ختم ہو گئی لیکن عمارت پھر بھی کھڑی ہو گئی۔"
نواز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ کے ان دلائل پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق بولے کہ جب کرپشن ہی نہیں تو پھر آمدن سے زائد اثاثے کیسے آ گئے؟ ایک عوامی نمائندے کے اثاثے اگر معلوم آمدن سے زائد ہیں تو بغیر کرپشن کے وہ یہ کیسے بنا سکتا ہے؟
یہ احوال ہے اسلام آباد میں نواز شریف کے خلاف ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کا جہاں عدالت نے ایک گھنٹے سے زائد وقت تک نواز شریف کے وکیل امجد پرویز کے دلائل سنے۔
نواز شریف دوپہر تقریباً دو بجے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے تو ایک بار پھر سخت سیکیورٹی دیکھنے میں آئی۔
عدالت میں اگرچہ نواز شریف کے صرف 15 وکیلوں کو آنے کی اجازت ہوتی ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر 100 سے زائد کارکن ان وکلا کے ساتھ ہی کمرۂ عدالت میں داخل ہو گئے۔ تیس صحافیوں کو کارڈ دکھا کر عدالت میں آنے کی اجازت تھی، لیکن سیاسی کارکنوں کے لیے عدالت آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔
پیر کو دورانِ سماعت موبائل فون دو بار بجنے پر چیف جسٹس عامر فاروق بھی غصے میں آئے اور کہا کہ اب کمرۂ عدالت میں آنے والوں کی تعداد کو بھی دیکھنا ہو گا۔
'ہم نے والیم 10 مانگا تھا جو نہیں دیا گیا'
ایون فیلڈ پر باقاعدہ سماعت شروع ہوئی تو نواز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے پانامہ کیس میں جے آئی ٹی کی تشکیل سے لے کر انہیں سزا ہونے تک کے حوالے دیے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس دائر کیا گیا۔ فیصلے کی روشنی میں نواز شریف، حسین اور حسن نواز کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس دائر کیا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ نیب دورانِ جرح تسلیم کر چکی ہے کہ ہمارے پاس ریفرنس دائر کرنے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں تھا، احتساب عدالت کو چھ ماہ میں ریفرنس پر فیصلہ کرنے کی ہدایت کی گئی، فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف بری ہوئے۔ العزیزیہ میں سات سال اور ایون فیلڈ میں 10 سال کی سزا ہوئی، العزیزیہ میں نیب نے سزا بڑھانے کی اپیل دائر کر رکھی ہے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے جے آئی ٹی کا والیم 10 مانگا تھا مگر ہمیں فراہم نہیں کیا گیا، نیب نے جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر ریفرنسز دائر کر دیے، نیب نے نواز شریف کو ایک کال اپ نوٹس بھیجنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ گواہوں کے بیانات کے علاوہ کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے، نیب نے ٹی وی انٹرویوز پیش کیے، نواز شریف کی اسمبلی فلور پر کی گئی تقریر کا حوالہ دیا، ایک گواہ رابرٹ ریڈلے پیش کیا جو نواز شریف کی حد تک کیس میں متعلقہ گواہ نہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ نیب نے اپنی طرف سے الگ سے کوئی تفتیش نہیں کی؟ وکیل امجد پرویز نے جواب دیا کہ جی بالکل، نیب نے صرف جے آئی ٹی کے سامنے بیان کی تصدیق چاہی، نیب نے نواز شریف کو خود سے کوئی سوالنامہ نہیں دیا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ پوری جے آئی ٹی رپورٹ نیب نے ریفرنس میں شامل کر دی؟
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نواز شریف کو مالک اور مریم نواز سمیت دیگر بچوں کو بے نامی دار ثابت کرنے کا بوجھ پراسیکیوشن پر تھا، ہمارا مؤقف یہی رہا کہ چارج بھی غلط فریم ہوا ہے۔
اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ معذرت کے ساتھ نہ چارج صحیح فریم ہوا اور نہ نیب کو پتا تھا کہ شواہد کیا ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مریم نواز بینفشل اونر ہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ نیب نے یہ کوشش ضرور کی مگر اس الزام کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ احتساب عدالت نے نواز شریف پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا الزام مسترد کر دیا۔ نیب نے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر نہیں کی۔
عدالت نے نواز شریف کو آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام پر سزا سنا دی، سمجھ سے باہر ہے کہ کرپشن کی بنیاد ختم ہو گئی۔ لیکن عمارت پھر بھی کھڑی ہو گئی۔
اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جب کرپشن ہی نہیں تو پھر آمدن سے زائد اثاثے کیسے آ گئے؟ ایک عوامی نمائندے کے اثاثے اگر معلوم آمدن سے زائد اثاثے ہیں تو بغیر کرپشن کے وہ یہ کیسے بنا سکتا ہے؟
عدالت نے اپیلوں پر سماعت بدھ تک ملتوی کر دی، نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے عوام کو مشکلات ہوتی ہیں۔ لہذا اگر نواز شریف کو استثناٰ دے دیا جائے تو اچھا ہو گا، اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ درخواست دیں تو ہم دیکھتے ہیں۔
باہر نکلے تو ایک بار پھر وہی ہنگامہ آرائی اور نواز شریف کے گرد ان کے ورکر اور وکلا جمع تھے اور دھکم پیل کے درمیان نواز شریف روانہ ہو گئے۔
تاہم ابھی العزیزیہ ریفرنس پر سماعت ہونا باقی ہے۔
ایون فیلڈ ریفرنس
ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کیس میں ان پر الزام تھا کہ وہ لندن میں موجود اپنی رہائش گاہ ایون فیلڈ میں اپارٹمنٹ خریدنے کے ذرائع بتانے سے قاصر تھے۔
احتساب عدالت نے اس مقدمے میں نواز شریف کو 2018 کے انتخابات سے چند ہفتے قبل قید کی سزا سنائی تھی۔
نواز شریف کے علاوہ مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو بھی قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم بعد میں دونوں کو ہائی کورٹ سے بریت مل گئی تھی۔ نواز شریف کا کیس ان کے بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے علیحدہ کردیا گیا تھا۔
العزیزیہ اسٹیل ملز کیس
العزیزیہ کیس میں نواز شریف کو سات سال قید کی سزا ملی تھی۔ اکتوبر 2019 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں طبی بنیادوں پر آٹھ ہفتوں کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے اُنہیں 20، 20 لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
اس ضمانت میں توسیع کا حق پنجاب حکومت کو دیا گیا تھا جس نے ایسا نہیں کیا۔ نواز شریف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل کے لیے بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے دو دسمبر 2020 کو انہیں اشتہاری قرار دیا تھا۔
فورم